Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: )
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1766.
سیدنا عرفہ بن حارث کندی ؓ کہتے ہیں کہ میں حجتہ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر تھا کہ قربانی کی اونٹنیاں لائی گئیں۔ آپ نے فرمایا: ”ابوالحسن (علی) کو بلاؤ۔“ چنانچہ انہیں آپ کے لیے بلایا گیا، تو آپ نے ان سے فرمایا: ”برچھے کو نیچے سے پکڑو۔“ اور خود آپ نے اس کے اوپر سے پکڑا، پھر آپ دونوں نے اسے (اونٹنیوں کے نحر کرنے میں) چلایا۔ جب آپ فارغ ہو گئے تو اپنے خچر پر سوار ہوئے اور سیدنا علی ؓ کو بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف، الأزدي هذا فيه جهالة) .إسناده: حدثنا محمد بن حاتم: ثنا عبد الرحمن بن مهدي: ثنا عبد الله بن المبارك عن حرملة بن عمران عن عبد الله بن الحارث الأزدي...
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ لجهالة عبد الله بن الحارث هذا، كما أشار إلى ذلك الذهبي بقوله: ما روى عنه سوى حرملة .والحديث أخرجه البيهقي (5/238) من طريق المؤلف وغيره.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا عرفہ بن حارث کندی ؓ کہتے ہیں کہ میں حجتہ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر تھا کہ قربانی کی اونٹنیاں لائی گئیں۔ آپ نے فرمایا: ”ابوالحسن (علی) کو بلاؤ۔“ چنانچہ انہیں آپ کے لیے بلایا گیا، تو آپ نے ان سے فرمایا: ”برچھے کو نیچے سے پکڑو۔“ اور خود آپ نے اس کے اوپر سے پکڑا، پھر آپ دونوں نے اسے (اونٹنیوں کے نحر کرنے میں) چلایا۔ جب آپ فارغ ہو گئے تو اپنے خچر پر سوار ہوئے اور سیدنا علی ؓ کو بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عرفہ بن حارث کندی ؓ کہتے ہیں میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا، ہدی کے اونٹ لائے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ابوالحسن (علی ؓ کی کنیت ہے) کو بلاؤ۔“ چنانچہ آپ کے پاس علی ؓ کو بلا کر لایا گیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم برچھی کا نچلا سرا پکڑو۔“ اور رسول اللہ ﷺ نے اوپر کا سرا پکڑا پھر اونٹوں کو نحر کیا جب فارغ ہو گئے تو اپنے خچر پر سوار ہوئے اور علی کو اپنے پیچھے سوار کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Arfah (RA) ibn al-Harith al-Kandi: I was present with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) at the Farewell Pilgrimage. When the sacrificial camels were brought to him, he said: Call Abul Hasan ('Ali (RA)) to me. 'Ali (RA) was then called for and he (the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم) said to him: Catch hold of the lower end of the lance, and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) himself caught hold of the upper end. He then pierced the camels with it. When he finished slaughtering, he rode on his mule and mounted 'Ali (RA) behind him.