Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' From Kissing)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
178.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک بار) ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے (یعنی ابراہیم تیمی اور سیدہ عائشہ ؓ کے مابین راوی محذوف ہے) اور ابراہیم تیمی نے سیدہ عائشہ ؓ سے کچھ سنا نہیں ہے اور فریابی وغیرہ نے ایسے ہی (غیر موصول) بیان کیا ہے اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابراہیم تیمی چالیس سال کے نہیں ہوئے تھے کہ وفات پا گئے۔ ان کی کنیت ابواسماء تھی۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: وهو كما قال، لكن الحديث صحيح؛ لأنه جاء موصولاً عنها وهو [ التالي ]) . إسناده: حدثنا محمد بن يشار: ثنا يحيى وعبد الرحمن قالا: ثنا سفيان عن أبي رَوْق عن إبراهيم التيمي. قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير أبي روق هذا - واسمه عطية بن الحارث-، وهو صالح كما قال ابن معين. وقال غيره: ليس به بأس .
فالإسناد صحيح لولا ما فيه من الانقظاع الذي صرح به المؤلف في الكتاب. لكن يقويه أنه جاء موصولاً من وجه آخر عن عائشة رضي الله عنها؛ وهو المذكور بعده، ولذلك صححه السيوطي في آخر الجامع الكبير . والحديث رواه النسائي (1/39) ، والدارقطني (51) ، والبيهقي (1/126- 127) ، وعبد الرزاق (1/135/511) ، وأحمد (6/210) من طرق أخرى عن سفيان... به. وفي لفظ للدارقطني: كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يتوضأ، ثم يقبل بعدما يتوضأ، ثم يصلي ولا يتوضأ. وأعله هو والبيهقي بما سبق ذكره من الانقطاع؛ وزاد البيهقي: وأبو روق ليس بقوي، ضعفه يحيى بن معين وغيره ! قلت: كذا نقل البيهقي عن يحيى! وقد نقلنا عنه آنفاً أنه قال فيه: صالح ؛ وهو الذي ذكره في التهذيب ، ولم يَحْكِ عن ابن معين غيره؛ كما أنه لم يذكر عن أحد من الأئمة تضعيفه؛ فلا أدري أفات هذا الذي ذكره البيهقي على الزي ثم الحافظ؟! أم أنهما تركاه عمداً؟! أم أن البيهقي وهم في نقله عن يحيى وغيره؟! والله أعلم. والحديث قال المصنف عقبه: كذا رواه الفريابي وغيره، وهو مرسل... إلخ. قلت: والفريابي: هو محمد بن يوسف الضَبِّي، وهو ثقة من رجال الشيخين، روى عن الثوري ولازمه، ويعني المصنف أنه رواه كغيره عن سفيان منقطعاً. وقد روي موصولأ، فقد قال الدارقطني: وقد روى هذا الحديث: معاوية بن هشام عن الثوري عن أبي روق عن إبراهيم التيمي عن أبيه عن عائشة؛ فوصل إسناده . قال ابن التركماني (1/125) : ومعاوية هذا؛ أخرج له مسلم في صحيحه ، فزال بذاك انقطاعه .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک بار) ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے (یعنی ابراہیم تیمی اور سیدہ عائشہ ؓ کے مابین راوی محذوف ہے) اور ابراہیم تیمی نے سیدہ عائشہ ؓ سے کچھ سنا نہیں ہے اور فریابی وغیرہ نے ایسے ہی (غیر موصول) بیان کیا ہے اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابراہیم تیمی چالیس سال کے نہیں ہوئے تھے کہ وفات پا گئے۔ ان کی کنیت ابواسماء تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے فریابی وغیرہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مرسل ہے، ابراہیم تیمی کا ام المؤمنین عائشہ ؓ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابراہیم تیمی ابھی چالیس برس کے نہیں ہوئے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا تھا، ان کی کنیت ابواسماء تھی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aishah, Ummul Mu’minin (RA): The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) kissed me and did not perform ablution. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This tradition is Mursal (i.e. where the link of the Companions is missing and the Successor reports from the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم directly). Ibrahim at-Taimi did not hear anything from 'Aishah. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Al-Firyabi and other narrated this tradition in a like manner.