Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Performing The Ifrad Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1791.
سیدنا ابن عباس ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب آدمی نے حج کا احرام باندھا پھر مکہ آیا، بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کر لی تو وہ حلال ہو گیا اور یہ عمرہ ہو گا۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں اس حدیث کو ابن جریج نے ایک شخص کے واسطے سے عطاء سے یوں روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اصحاب صرف حج کا تلبیہ کہتے ہوئے (مکے میں) داخل ہوئے۔ پس نبی کریم ﷺ نے اس کو عمرہ بنا دیا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح) .إسناده: حدثنا عبيد الله بن معاذ: حدثني أبي: ثنا النهاسُ عن عطاء عن ابن عباس.قال أبو داود: رواه ابن جريج عن عطاء:دخل أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بالحج خالصاً، فجعلها النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عمرة .
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ غير النهاس- وهو ابن قَهْمٍ - ضعيف. وأما إعلال المصنف إياه بمخالفة ابن جريج، فرواه عن عطاء مرسلاً! فليس بشيء عندي؛ لأنه قد رواه جمع من الثقات عن ابن جريج عن عطاء عن جابر... مسنداً نحو رواية النهاس هذه، كما تقدم عند المؤلف برقم (1568) من طريق الأوزاعي عن ابن جريج، وذكرت له هناك متابعاً عنه؛ فراجعه إن شئت.فإذن قد توبع النهاس على إسناده، ولو أنه خولف في اسم الصحابي،فالصحابة كلهم عدول، بل إنه قد توبع عليه؛ فأخرجه مسلم (4/58) من طريق محمد بن بكر: أخبرنا ابن جريج: أخبرني عطاء قال:كان ابن عباس يقول: لا يطوف بالبيت حاجٌّ ولا غير حاج إلا حَلَّ. قلت لعطاء: من أين يقول ذلك؟قال: من قول الله تعالى: (ثم مَحِلُّها إلى البيت العتيق) . قال: قلت: فإن ذلك بعد المُعَرفِ. فقال: كان ابن عباس يقول:هو بعد المُعَرفِ وقبله، وكان يأخذ ذلك من أمر النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حين أمرهم أن يَحِلوا في حجة الوداع.
قلت: فقد وصله محمد بن بكر، فذكر ابن عباس في إسناده؛ فهي متابعة قوية للنهاس، لكنه قد خالفه في متنه؛ فأوقفه على ابن عباس. وأشار ابن القيم إلى ترجيحه، فقال تعليقاً على حديث الباب: والتعليل الذي تقدم لأبي داود في قوله: هذا حديث منكر ؛ إنما هولحديث عطاء هذا عن ابن عباس يرفعه: إذا أهل الرجل بالحج ؛ فإن هذا قول ابن عباس الثابت عنه بلا ريب، رواه عنه أبو الشعثاء وعطاء وأنس بن سُلَيم وغيرهم من كلامه، فانقلب على الناسخ، فنقله إلى حديث مجاهد عن ابن عباس، وهو إلى جانبه، وهو حديث صحيح لا مطعن فيه... .
قلت: لكن قد جاء الحديث من طريق أخرى عن ابن عباس... مرفوعاً نحوه، فقال ابن إسحاق: حدثني محمد بن مسلم الزهري عن كُريب مولى ابن عبد الله بن عباس عن ابن عباس، قال:
قلت له: يا أبا العباس! أرأيت قولك: ما حج رجل لم يسق الهدي معه، ثم طاف بالبيت؛ إلا حل بعمرة، وما طاف بها حاج قد ساق معه الهدي؛ إِلااجتمعت له عمرة وحجة، والناس لا يقولون هذا؟! فقال: ويحك! إن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خرج وَمَنْ معه من أصحابه، لا يذكرون إلا الحج، فأمر رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من لم يكن معه الهدي أن يطوف بالبيت، ويَحِل بعمرة، فجعل الرجل منهم يقول:يا رسول الله! إنما هو الحج؟! فيقول رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنه ليس بالحج؛ ولكنها عمرة .وإسناده حسن.وتابعه يونس بن يزيد عن ابن شهاب... به.أخرجه الطبراني في الكبير (3/150- 151) .ويقويه ما رواه قتادة قال: سمعت أبا حسان الأعرج قال:قال رجل من بني الهُجيم لابن عباس: ما هذه الفتيا التي قد تشغفت أوتَشَعَبَتْ بالناس: أن من طاف بالبيت فقد حَل؟ فقال: سُنةُ نبيكم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ وإن رغمتم! زاد في رواية: يعني: من لم يكن معه هدي.أخرجه أحمد 1 (/278 و 280 و 342) - والزيادة له في رواية-، ومسلم(4/58) .ثم إن للحديث شاهداً قوياً من رواية سَبْرَةَ بن مَعْبَدٍ... مرفوعاً بلفظ: إن الله قد أدخل عليكم في حجكم هذا عُمْرَةً، فإذا قدمتم؛ فمن تطوف بالبيت وبين الصفا والمروة؛ فقد حَلَّ؛ إلا من كان معه هدي .أخرجه المصنف وغيره بسند جيد، كما سيأتي بيانه برقم (1580) .
قلت: فهذا الشاهد وما قبله من المتابعات، وقول ابن عباس: سنة نبيكم ؛ أقوى دليل على أن النهاس قد حفظ الحديث ولم يخطئ فيه. والله أعلم.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابن عباس ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب آدمی نے حج کا احرام باندھا پھر مکہ آیا، بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کر لی تو وہ حلال ہو گیا اور یہ عمرہ ہو گا۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں اس حدیث کو ابن جریج نے ایک شخص کے واسطے سے عطاء سے یوں روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اصحاب صرف حج کا تلبیہ کہتے ہوئے (مکے میں) داخل ہوئے۔ پس نبی کریم ﷺ نے اس کو عمرہ بنا دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب آدمی حج کا احرام باندھ کر مکہ آئے اور بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لے تو وہ حلال ہو گیا اور یہ عمرہ ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن جریج نے ایک شخص سے انہوں نے عطا سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ خالص حج کا احرام باندھ کر مکہ میں داخل ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے اسے عمرہ سے بدل دیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas reported the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying If a man raises his voice in talbiya for Hajj, then he comes to Makkah, goes round the House(the Ka’bah) and runs between As Safa’ and Al Marwah he may take off his ihram. That will be considered as ihram for ‘Umrah. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said Ibn Juraij narrated from a man on the authority of ‘Ata that the companions of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) entered Makkah raising their voices in talbiyah for Hajj alone, but the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) changed it to ‘Umrah.