Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' From Touching The Penis)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
181.
جناب عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں مروان بن حکم کے پاس گیا، وہاں یہ موضوع چھڑ گیا کہ کس کس چیز سے وضو لازم آتا ہے؟ مروان نے کہا کہ شرمگاہ کو چھونے سے بھی (وضو لازم آتا ہے؟) عروہ کہتے ہیں: میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ مروان نے کہا کہ مجھے بسرہ بنت صفوان ؓ نے بتایا، وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: ”جو کوئی اپنے ذکر کو ہاتھ لگائے اسے چاہیے کہ وضو کرے۔“
تشریح:
زیرنظر مسئلہ میں شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کی دونوں احادیث وارد ہیں اوردونوں ہی صحیح ہیں۔ محدثین ان کے مابین تطبیق یہ دیتے ہیں اگر براہ راست بغیر کسی حائل کے ہاتھ لگے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن درمیان میں کپڑا ہو تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ یا اگر شہوانی جذبات کے تحت ہاتھ لگایا ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اس کے بغیر ہو تو نہیں ٹوٹتا۔کچھ محدثین کے نزدیک زیرنظر حدیث(بسرہ بنت صفوان) دوسری حدیث(طلق) کی ناسخ ہے۔ خیال رہے کہ عورتوں کے لیے بھی یہی مسئلہ ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: وتمامه: بدرهم؟ . فقالوا: ما نحب أنه لنا بشيء، وما نصنع به؟! قال: أتحبون أنه لكم؟ .قالوا: والله لو كان حياً كان عيباً فيه؛ لأنه أسلث، فكيف وهو ميت؟!فقال: فو الله؛ للدنيا أهون على الله من هذا عليكم . (قلت: وإسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في صحيحه بتمامه بإسناد المصنف) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة: ثنا سليمان- يعني: ابن بلال- عن جعفرعن أبيه عن جابر. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم، وجعفر: هو ابن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب؛ المعروف ب (جعفر الصادق) . والحديث أخرجه مسلم في صحيحه (8/210- 211) ... بهذا الإسناد؛ والتتمة نقلناها منه. ثم أخرجه هو، والبخاري في الأدب المفرد (ص 140- طبع الهند) ، وأحمد (3/365) من طرق أخرى عًن جعفر... به؛ وزاد البخاري- بعد قوله: لأنه أسك -: والأسك الذي ليس له أذنان . (تنبيه) : هنا في النسخة التي شرح عليها صاحب عون المعبود ما نصه: تم الجزء الأول، وبتلوه الجزء الثاني من تجزئة الخطيب البغدادي؛ وأوله (باب ترك الوضوء مما مست النار) . فللّه الحمد والمنة .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں مروان بن حکم کے پاس گیا، وہاں یہ موضوع چھڑ گیا کہ کس کس چیز سے وضو لازم آتا ہے؟ مروان نے کہا کہ شرمگاہ کو چھونے سے بھی (وضو لازم آتا ہے؟) عروہ کہتے ہیں: میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ مروان نے کہا کہ مجھے بسرہ بنت صفوان ؓ نے بتایا، وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: ”جو کوئی اپنے ذکر کو ہاتھ لگائے اسے چاہیے کہ وضو کرے۔“
حدیث حاشیہ:
زیرنظر مسئلہ میں شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کی دونوں احادیث وارد ہیں اوردونوں ہی صحیح ہیں۔ محدثین ان کے مابین تطبیق یہ دیتے ہیں اگر براہ راست بغیر کسی حائل کے ہاتھ لگے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن درمیان میں کپڑا ہو تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ یا اگر شہوانی جذبات کے تحت ہاتھ لگایا ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اس کے بغیر ہو تو نہیں ٹوٹتا۔کچھ محدثین کے نزدیک زیرنظر حدیث(بسرہ بنت صفوان) دوسری حدیث(طلق) کی ناسخ ہے۔ خیال رہے کہ عورتوں کے لیے بھی یہی مسئلہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن ابی بکر کہتے ہیں کہ انہوں نے عروہ کو کہتے سنا: میں مروان بن حکم کے پاس گیا اور ان چیزوں کا تذکرہ کیا جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، تو مروان نے کہا: اور عضو تناسل چھونے سے بھی (وضو ہے)، اس پر عروہ نے کہا: مجھے یہ معلوم نہیں، تو مروان نے کہا: مجھے بسرہ بنت صفوان ؓ نے خبر دی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو اپنا عضو تناسل چھوئے وہ وضو کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Busrah daughter of Safwan (RA): 'Abdullah ibn Abu Bakr reported that he heard Urwah say: I entered upon Marwan ibn al-Hakam. We mentioned things that render the ablution void. Marwan said: Does it become void by touching the penis? Urwah replied: This I do not know. Marwan said: Busrah daughter of Safwan reported to me that she heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: He who touches his penis should perform ablution.