Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Concession In This Regard)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
182.
جناب قیس بن طلق اپنے والد ( طلق ؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو ایک آدمی آیا وہ بظاہر بدوی (دیہاتی) تھا، کہنے لگا: اے اللہ کے نبی! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس نے وضو کے بعد اپنے ذکر کو ہاتھ لگا لیا ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ اس کے جسم کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے!۔“ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس روایت کو ہشام بن حسان، سفیان ثوری، شعبہ، ابن عیینہ اور جریر رازی نے محمد بن جابر سے، انہوں نے قیس بن طلق سے روایت کیا ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه ابن حبان في صحيحه ، والطحاوي وقال: صحيح مستقيم الاسناد ، وصححه أيضا عمرو بن علي الفَلاس والطبراني وابن حزم، وحسن الترمذي بهذا الاسناد ثلاثة أحاديث أخرى، وقال في هذا: إنه أحسن شيء في الباب ) . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا ملازم بن عمرو الحنفي: ثنا عبد الله بن بدر. وهذا سند صحيح، رجاله كلهم ثقات، وقد تكلم بعضهم في قيس بن طلق بغير حجة نعلمها! وقد وثقه ابن معين والعجلي وابن حبان. وقال الذهبي في الميزان - بعد أن ذكر قول من جرحه-: قال ابن القطان: يقتضي أن يكون خبره حسناً لا صحيحاً 0 قلت: وعلى ذلك جرى الترمذي، فروى له ثلاثة أحاديث بإسناد واحد من طريق هَناد: حدثنا ملازم بن عمرو... به: الأول في الوتر ، وسيأتي في الكتاب (رقم 1293) . والثاني في الصوم ، وسيأتي (رقم 2033) . والثالث في النكاح (1/217- طبع بولاق) ؛ وحسنها كلها. وصحح له الحاكم في المستدرك (4/146) حديثاً رابعاً في الرقية، ووافقه الذهبي على تصحيحه. والحديث أخرجه النسائي (1/38) ، والطحاوي (1/416) ، والدارقطني (ص 54) ، والبيهقي (1/134) ، وابن حبان في صحيحه (2/ 423/1116 و 1117) من طرق عن ملازم بن عمرو... به. واْخرجه الترمذي (1/131) : حدثنا هناد: ثنا ملازم بن عمرو... به مختصراً. وقال: وهذا الحديث أحسن شيء روي في هذا الباب . وقال الطحاوي: حديث صحيح مستقيم الإسناد . قال في التلخيص (1/48- 49) : وصححه عمرو بن علي الفلاس وقال: هو عندنا أثبت من حديث بسرة. وروي عن ابن المديني أنه قال: هو عندنا أحسن من حديث بسرة. وصححه أيضا ابن حبان والطبراني وابن حزم [1/239] . قلت: ولست أشك أن حديث بسرة أصح من هذا؛ لأن إسناده أشهر، ولأن له شواهد قوية؛ بخلاف هذا، فليس له إلا شواهد ضعيفة الأسانيد، كما يتببن لك ذلك بمراجعة نصب الراية و التلخيص . ولكن الحديث على كل حال صحيح، ولا ضرورة لادعاء للنسخ في أحدهما؛ لأنه يمكن الجمع بينهما بأن يقال: إن كان المس بدون شهوة فهو لا ينقض؛ لأنه يكون كما لو مسّ بضعة أخرى من بدنه، وإن كان المس بشهوة؛ فالعمل على حديث بسرة، ولا يخالفه هذا؛ لأنه لا يكون المس حينئذ كما لو مس بضعة أخرى. وإلى هذا ذهب شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في الجمع بين الحديثين، وتبعه بعض المحققين من المتأخرين. قلت: ومما يؤيد ذلك أن: الحديث صدر جواباً لمن سأله عن الرجل يمس ذكره وهو في الصلاة؛ كما في روايتين عن قيس بن طلق: لابن ح ان. ولا يخفى أن هذه قرينة قوية جداً للجمع المذكور؛ لأنه لا يتصور وقوع المممن بشهوة في الصلاة، وقد أشار إلى ذلك من قاله من السلف: سواءً مَسسْتهُ أو مَسسْتُ أنفي. قلت: روايتين .. وأعني بإحداهما: روايته من طريق عبد الله بن بدر، والأخرى: من طريق عكرمة بن عمار عن قيس بن طلق عن أبيه: عند ابن حبان (1118- ا لإحسان) . وقول البيهقي (1/135) أن عكرمة أرسله عن قيس لم يذكر أباه... لعله في رواية وقعت له. والرواية الأولى: عند الدارقطني أيضا بإسناد جيد، رجاله ثقات معروفون؛ غير الراوي عن ملازم بن عمرو: محمد بن زياد بن فَرْوة البَلَدِي أبي روح، وقد ذكره ابن حبان في الثقات (9/84) برواية محمد بن طاهر البلدي وأهل الجزيرة عنه. قلت: والحافظ عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي الراوي لهذا الحديث عنه؛ فهو صدوق إن شاء الله تعالى.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب قیس بن طلق اپنے والد ( طلق ؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو ایک آدمی آیا وہ بظاہر بدوی (دیہاتی) تھا، کہنے لگا: اے اللہ کے نبی! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس نے وضو کے بعد اپنے ذکر کو ہاتھ لگا لیا ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ اس کے جسم کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے!۔“ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس روایت کو ہشام بن حسان، سفیان ثوری، شعبہ، ابن عیینہ اور جریر رازی نے محمد بن جابر سے، انہوں نے قیس بن طلق سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طلق بن علی ؓ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اتنے میں ایک شخص آیا وہ دیہاتی لگ رہا تھا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! وضو کر لینے کے بعد آدمی کے اپنے عضو تناسل چھونے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ تو اسی کا ایک لوتھڑا ہے۔“ یا کہا: ”ٹکڑا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں عضو تناسل کے چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے کی دلیل ہے، جب کہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عضو تناسل کے مس (چھونے) کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اس لئے علماء نے ان دونوں کے درمیان تطبیق و توفیق کی صورت یہ نکالی ہے کہ عضو تناسل پر پردہ ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا، اور پردہ نہ ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ طلق بن علی کی حدیث کے الفاظ «الرجل يمس ذكره في الصلاة» سے یہی مفہوم نکلتا ہے، دوسری صورت تطبیق کی یہ ہے کہ اگر شہوت کے ساتھ ہے تو ناقض وضو ہے بصورت دیگر نہیں، واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Talq (RA): We came upon the Prophet (ﷺ) of Allah (ﷺ). A man came to him: he seemed to be a bedouin. He said: Prophet (ﷺ) of Allah, what do you think about a man who touches his penis after performing ablution? He (ﷺ) replied: That is only a part of his body. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: The tradition has been transmitted through a different chain of narrators.