Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: What The Muhrim Should Wear)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1827.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے عورتوں کو احرام میں دستانے پہننے اور نقاب لگانے سے منع فرمایا ہے۔ اور ایسے لباس سے بھی جسے ورس (ایک رنگ دار بوٹی) اور زعفران لگی ہو۔ ان کے علاوہ جو لباس اور رنگ چاہے پہن لے (یعنی) عصفر (زرد) رنگ ہو یا ریشم، یا زیور یا شلوار یا قمیص یا موزہ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو عبدہ بن سلیمان اور محمد بن سلمہ، محمد بن اسحٰق سے اور وہ نافع سے روایت کرتے ہیں مگر صرف اس حصے تک (یعنی) «و مس الورس والزعفران من الثياب» بعد والا حصہ یہ دونوں روایت نہیں کرتے۔
تشریح:
امام ابوداؤد بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اس روایت کے آخر میں مذکورہ تفصیل ذکر کرنے میں یعقوب کے والد ابراہیم بن سعد منفرد ہیں اور گویا یہ آخری حصہ حدیث میں درج ہے (بذل المجہود) جبکہ عصفر (زرد) رنگ کا استعمال اورموزوں کا پہننا (بلاعذر) صحیح تر احادیث میں منع آیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن صحيح، وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم !ووافقه الحافظ الذهبي) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا يعقوب: ثنا أبي عن ابن إسحاق قال:فإن نافعاً مولى عبد الله بن عمر حدثني عن عبد الله بن عمر.قال أبو داود: روى هذا الحديثَ عن ابن إسحاق: عبدة بن سليمان ومحمدابن سلمة إلى قوله: وما مس الورسُ والزعفرانُ مع الثياب... ولم يذكرا ما بعده .
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير ابن إسحاق، وهوحسن الحديث إذا صرح بالتحديث، وقد فعل هنا كما ترى.والحديث أخرجه الحاكم (1/486) ، وعنه البيهقي (5/47) : أخبرنا أحمد بن جعفر القَطِيعِي: ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل: حدثني أبي... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي!وقد ذكرنا مراراً أن مسلماً لم يحتج بابن إسحاق .واعلم أنني لم أرَ الحديث من هذا الوجه في المسند ! وإنما أخرجه فيه(2/32) من طريق يزيد: أنا محمد- يعني. ابن إسحاق- عن نافع... به.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے عورتوں کو احرام میں دستانے پہننے اور نقاب لگانے سے منع فرمایا ہے۔ اور ایسے لباس سے بھی جسے ورس (ایک رنگ دار بوٹی) اور زعفران لگی ہو۔ ان کے علاوہ جو لباس اور رنگ چاہے پہن لے (یعنی) عصفر (زرد) رنگ ہو یا ریشم، یا زیور یا شلوار یا قمیص یا موزہ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو عبدہ بن سلیمان اور محمد بن سلمہ، محمد بن اسحٰق سے اور وہ نافع سے روایت کرتے ہیں مگر صرف اس حصے تک (یعنی) «و مس الورس والزعفران من الثياب» بعد والا حصہ یہ دونوں روایت نہیں کرتے۔
حدیث حاشیہ:
امام ابوداؤد بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اس روایت کے آخر میں مذکورہ تفصیل ذکر کرنے میں یعقوب کے والد ابراہیم بن سعد منفرد ہیں اور گویا یہ آخری حصہ حدیث میں درج ہے (بذل المجہود) جبکہ عصفر (زرد) رنگ کا استعمال اورموزوں کا پہننا (بلاعذر) صحیح تر احادیث میں منع آیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ نے عورتوں کو حالت احرام میں دستانے پہننے، نقاب اوڑھنے، اور ایسے کپڑے پہننے سے جن میں ورس یا زعفران لگا ہو منع فرمایا، البتہ ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے چاہے پہنے جیسے زرد رنگ والے کپڑے، یا ریشمی کپڑے، یا زیور، یا پائجامہ، یا قمیص، یا کرتا، یا موزہ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو عبدہ بن سلیمان اور محمد بن سلمہ نے ابن اسحاق سے ابن اسحاق نے نافع سے حدیث «و مس الورس والزعفران من الثياب» تک روایت کیا ہے اور اس کے بعد کا ذکر ان دونوں نے نہیں کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abd Allah bin 'Umar said that he heard the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) prohibiting women in the sacred state (wearing ihram) to wear gloves, veil(their faces) and to wear clothes with dye of waras or saffron on them. But afterwards they can wear any kind of clothing they like dyed yellow or silk or jewelry or trousers or shirts or shoes. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: ‘Abdah and Muhammad bin Ishaq narrated this tradition from Muhammad bin Ishaq up to the words “And to wear clothes with dye of waras or saffron on them”. They did not mention the words after them.