Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: A Muhrim Marrying)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1844.
سیدنا ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سیدہ میمونہ ؓ سے نکاح کیا جبکہ آپ ﷺ حالت احرام میں تھے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه في صحيحه ،وأخرجه هو ومسلم وابن الجارود والحاكم من طرق أخرى عنه) .إسناده: حدثنا مسدد: ثنا حماد بن زيد عن أيوب عن عكرمة عن ابن عباس .
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ وقد أخرجه كما يأتي.والحديث أخرجه الترمذي (843) ، وابن سعد (8/136) من طرق أخرى عن حماد بن زيد... به.والبخاري (7/411) ، وأحمد (1/359 و 360) من طرق أخرى عن أيوب...به؛ وزاد البخاري- وهو رواية لأحمد-:وبنى بها وهو حلال، وماتت بسرف.وتابعه هشام: ثنا عكرمة... به. أخرجه أحمد (1/346 و 354) ، والترمذي(842) ، وصححه.وتابعه خالد عن عكرمة... به دون الزيادة: أخرجه أحمد (1/351) .ثم أخرجه هو (1/221 و 228 و 275 و 285 و 286 و 324 و 328 و 330و 332- 333 و 336 و 337 و 362) ، والبخاري (4/42 و 9/135) ، ومسلم(4/137) ، والترمذي (844) ، والنسائي (2/27) ، والدارمي (2/37) ، والطحاوي(1/442) ، وكذا ابن ماجه (1/606) ، وابن الجارود (446) ، والحاكم (4/31-32) ، والبيهقي (5/66) ، والحميدي في مسنده (503) ، وابن سعد (8/235-236) من طرق كثيرة عن ابن عباس... مختصراً ومطولاً. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح .ومن طريقه- عند ابن حبان (4121) - عن عطاء ومجاهد عن ابن عباس:أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تزوج ميمونة وهو محرم في عمرة القضاء.وسنده حسن.وللحديث شاهدان من حديث عائشة وأبي هريرة: أخرجهما الطحاوي،وصححهما الحافظ في الفتح (4/42) .والأول منهما أخرجه ابن حبان أيضاً (1271) .وشواهد أخرى مرسلة: أخرجها ابن سعد.وقد عارض هذه الأحاديثَ: حديثُ ميمونة الذي قبله. وله شاهدان أيضاً:الأول: عن أبي رافع قال:تزوج رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ميمونة وهو حلال، وبنى بها وهو حلال، وكنت أناالرسول فيما بينهما.أخرجه الترمذي (841) ، والدارمي (2/38) ، وابن حبان (1272) ، والبيهقي وابن سعد (8/134) ، وأحمد (6/392- 393) من طريق مَطَرٍ الوَراقِ عن ربيعةابن أبي عبد الرحمن عن سليمان بن يسار عنه. وقال الترمذي: حديث حسن !
قلت: مطر في حفظه ضعف، ولذلك لم يحتج به مسلم.وقد خالفه مالك في الموطأً (1/320- 321) ؛ فرواه عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن عن سليمان بن يسار... مرسلاً، لم يذكر فيه أبا رافع.وكذلك خالفه أنس بن عياض أبو ضَمْرَةَ فقال: حدثني ربيعة بن أبي عبد الرحمن... به مرسلاً:أخرجه ابن سعد.فالصحيح مرسل.ومع ذلك؛ صحح ابن القيم- في الزاد (2/214) - الموصولَ.الثاني: عن صفية بنت شيبه- ولها رؤية، وفي البخاري التصريح بسماعها من النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-. قال ميمون بن مهران: دخلت على صفية بنت شيبة- عجوز كبيرة- فسألتها: أتزوج رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ميمونة وهو محرم؟ فقالت: لا والله؛ لقد تزوجها وإنهما لحلالان! أخرجه ابن سعد (8/133) - عن عبيد الله بن عمرو-، والبيهقي (7/211) - عن معمر-، كلاهما عن عبد الكريم عنه-وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وعبد الكريم: هو ابن مالك الجَزَرِيّ الحَرَانِيُ.وللحديث شواهد أخرى مرسلة أيضاً؛ فلا مجال لترجيح أحد الحديثين على الآخر من حيث الإسناد.ولذلك؛ فالتعارض بينهما شديد، ولا سبيل إلى التوفيق بينهما؛ إلا إن ثبت ما ذكره الحافظ في الفتح (9/136) :أن ابن عباس كان يرى أن من قلد الهدي يصير محرماً، كما تقدم تقرير ذلك عنه في (كتاب الحج) ، والنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان قَلَّدَ الهدي في عمرته تلك التي تزوج فيها ميمونة، فيكون إطلاقه أنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تزوجها وهو محرم؛ أي: عقد عليها بعد أن قَلَّدَ الهدي؛ وإن لم يكن تلبَس بالإحرام، وذلك أنه كان أرسل إليها أبا رافع يخطبها، فجعلت أمرها إلى العباس.
قلت: فإن صح أن هذا هو مراد ابن عباس؛ زال التعارض وثبت الحديثان؛ وإلافلا مناص من القول بتوهيم ابن عباس، ومن قال بقوله. وقد صرح بتوهيمه سعيد ابن المسيب، كما يأتي في الكتاب بعده، وهو قول جمهور أهل النقل، كما قال ابن القيم؛ وذلك لأن ميمونة صاحبة القصة أعلم بشأنها من غيرها، وقد أخبرت بحالها وبكيفية الأمر في ذلك العقد. قال الخطابي: وهو من أدل الدليلِ على وهم ابن عباس. وقال الأثرم: قلت لأحمد: إن أباثور يقول: بأي شيء يُدْفع حديث ابن عباس؛ أي: مع صحته؟ قال: فقال: الله المستعان! ابن المسيب يقول: وَهِمَ ابنُ عباس. وميمونة تقول: تزوجني وهو حلال .وعلى هذا؛ فلا يصح أن يعارض به حديث عثمان التقدم (1614- 1615) ؛لا سيما والقول مقدم على الفعل عند التعارض.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔