Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Not Performing Wudu' From Touching A Carcass)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
186.
سیدنا جابر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک بار) بازار سے گزرے، آپ ﷺ عوالی مدینہ (بالائے مدینہ) کی جانب سے تشریف لائے تھے اور کچھ دوسرے لوگ بھی آپ ﷺ کی جلو میں دائیں بائیں تھے۔ آپ ﷺ کا گزر بکری کے ایک چھوٹے کان والے مردہ بچے کے پاس سے ہوا۔ آپ ﷺ نے اسے اس کے کان سے پکڑا اور فرمایا ”تم میں سے کس کا جی چاہتا ہے کہ یہ قبول کر لے“ اور راوی نے حدیث بیان کی۔
تشریح:
1۔ صحیح مسلم میں یہ حدیث مکمل اس طرح ہے کہ نبیﷺنےفرمایا: ’’تم میں سے کون چاہتا ہے کہ اس کو ایک درہم کےعوض لے؟ صحابہ نے کہا: ہم تو اسے نہیں لینا چاہتے اوراس کا ہم کریں گے بھی کیا؟ فرمایا: کیا تم اسے بلاقیمت لینا پسند کرتے ہو؟ کہنے لگے: قسم اللہ کی! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو عیب دارتھا‘ اس کے کان ہی چھوٹےچھوٹے ہیں اور اب تو یہ ویسے ہی مردار ہے۔ آپ نےفرمایا: قسم اللہ کی! دنیااللہ کے ہاں اس سے بھی زیادہ حقیرہے‘ جتنا تم اس کو حقیرجان رہے ہو۔‘‘ (صحیح مسلم‘ حدیث:2957) 2۔ رسول اللہﷺموقع بموقع پیش آمدہ حقائق کو تمثیلات سے سمجھاتے تھےاور اس واقعہ میں دنیا کی حقیقت کو نکھار دیا گیا ہے۔ داعی حضرات اور اساتذہ کو زندگی میں پیش آمدہ امورسے واقعاتی مثالیں پیش کرنی چاہییں۔ 3۔ مردار کو ہاتھ لگانے سے وضونہیں ٹوٹتا۔ (محدثین کی فقاہت قابل داد ہے۔ رحمهم اللہ تعالی)
الحکم التفصیلی:
(قلت: وتمامه: بدرهم؟ . فقالوا: ما نحب أنه لنا بشيء، وما نصنع به؟! قال: أتحبون أنه لكم؟ . قالوا: والله لو كان حياً كان عيباً فيه؛ لأنه أسلث، فكيف وهو ميت؟! فقال: فو الله؛ للدنيا أهون على الله من هذا عليكم . (قلت: وإسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في صحيحه بتمامه بإسناد المصنف) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة: ثنا سليمان- يعني: ابن بلال- عن جعفرعن أبيه عن جابر. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم، وجعفر: هو ابن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب؛ المعروف ب (جعفر الصادق) . والحديث أخرجه مسلم في صحيحه (8/210- 211) ... بهذا الإسناد؛ والتتمة نقلناها منه. ثم أخرجه هو، والبخاري في الأدب المفرد (ص 140- طبع الهند) ، وأحمد (3/365) من طرق أخرى عًن جعفر... به؛ وزاد البخاري- بعد قوله: لأنه أسك -: والأسك الذي ليس له أذنان . (تنبيه) : هنا في النسخة التي شرح عليها صاحب عون المعبود ما نصه: تم الجزء الأول، وبتلوه الجزء الثاني من تجزئة الخطيب البغدادي؛ وأوله (باب ترك الوضوء مما مست النار) . فللّه الحمد والمنة .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا جابر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک بار) بازار سے گزرے، آپ ﷺ عوالی مدینہ (بالائے مدینہ) کی جانب سے تشریف لائے تھے اور کچھ دوسرے لوگ بھی آپ ﷺ کی جلو میں دائیں بائیں تھے۔ آپ ﷺ کا گزر بکری کے ایک چھوٹے کان والے مردہ بچے کے پاس سے ہوا۔ آپ ﷺ نے اسے اس کے کان سے پکڑا اور فرمایا ”تم میں سے کس کا جی چاہتا ہے کہ یہ قبول کر لے“ اور راوی نے حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ صحیح مسلم میں یہ حدیث مکمل اس طرح ہے کہ نبیﷺنےفرمایا: ’’تم میں سے کون چاہتا ہے کہ اس کو ایک درہم کےعوض لے؟ صحابہ نے کہا: ہم تو اسے نہیں لینا چاہتے اوراس کا ہم کریں گے بھی کیا؟ فرمایا: کیا تم اسے بلاقیمت لینا پسند کرتے ہو؟ کہنے لگے: قسم اللہ کی! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو عیب دارتھا‘ اس کے کان ہی چھوٹےچھوٹے ہیں اور اب تو یہ ویسے ہی مردار ہے۔ آپ نےفرمایا: قسم اللہ کی! دنیااللہ کے ہاں اس سے بھی زیادہ حقیرہے‘ جتنا تم اس کو حقیرجان رہے ہو۔‘‘ (صحیح مسلم‘ حدیث:2957) 2۔ رسول اللہﷺموقع بموقع پیش آمدہ حقائق کو تمثیلات سے سمجھاتے تھےاور اس واقعہ میں دنیا کی حقیقت کو نکھار دیا گیا ہے۔ داعی حضرات اور اساتذہ کو زندگی میں پیش آمدہ امورسے واقعاتی مثالیں پیش کرنی چاہییں۔ 3۔ مردار کو ہاتھ لگانے سے وضونہیں ٹوٹتا۔ (محدثین کی فقاہت قابل داد ہے۔ رحمهم اللہ تعالی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ کے قریب کی بستیوں میں سے ایک بستی کی طرف سے داخل ہوتے ہوئے بازار سے گزرے، اور لوگ آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے دائیں بائیں جانب ہو کر چل رہے تھے، آپ چھوٹے کان والی بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے، آپ ﷺ نے اس کا کان پکڑ کر اٹھایا، پھر فرمایا: ”تم میں سے کون شخص اس کو لینا چاہے گا؟ “ اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ حلال جانوروں کے مردار کا چھونا جائز ہے، اور اس کے چھونے سے دوبارہ وضو کی حاجت نہیں۔ صحیح مسلم میں مکمل حدیث آئی ہے ۔۔۔ پھر صحابہ نے کہا: ہم تو اسے نہیں لینا چاہتے اور اس کا ہم کریں گے بھی کیا؟ فرمایا: کیا تم اسے بلاقیمت لینا پسند کرتے ہو؟ کہنے لگے: قسم اللہ کی! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو عیب دار تھا، اس کے کان ہی چھوٹے چھوٹے ہیں اور اب تو یہ ویسے ہی مردار ہے۔ آپ نے فرمایا : قسم اللہ کی! دنیا اللہ کے ہاں اس سے بھی زیادہ حقیر ہے، جتنا تم اس کو حقیر جان رہے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موقع بموقع پیش آمدہ حقائق کو تمثیلات سے سمجھاتے تھے اور اس واقعہ میں دنیا کی حقیقت کو نکھار دیا گیا ہے۔ داعی حضرات اور اساتذہ کو زندگی میں پیش آمدہ امور سے واقعاتی مثالیں پیش کرنی چاہییں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir narrated: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) passed by the market when on his return from one of the villages of 'Aliyah. People accompanied him from both sides. One the way he found a dead kid with both its ears joined together. He caught hold of it by its ear. He then said: Which of you likes to take it? The narrator transmitted the tradition in full.