Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Raising One's Hand When Seeing The House)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1870.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے پوچھا گیا کہ آدمی بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھائے (یا نہیں؟) انہوں نے کہا: میں نے یہودیوں کے علاوہ کسی کو ایسے کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (وہ لوگ بیت المقدس کو دیکھ کر ہاتھ اٹھاتے ہیں) اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں حج کیا تو آپ ﷺ نے ایسے نہیں کیا تھا۔
تشریح:
اس حدیث کی سند میں مہاجر بن عکرمہ مکی ہے۔ جو کہ مجہول ہے۔ اور اس مسئلے میں وار روایات میں کوئی بھی ایسی قوی نہیں ہے۔ جس سے بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ اُٹھانا مشروع ثابت ہوتا ہو۔ محض دعا کرنے کے بارے میں کچھ اخبار و آثار وارد ہیں۔ (نیل الأوطار: 42/5) ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ لاتُرفعُ الأيدي إلا في سبعِ مواطنَ صرف سات مقامات ایسے ہیں۔ جہاں ہاتھ اُٹھائے جایئں۔۔۔ اور ان میں ایک بیت اللہ کو دیکھ کر بھی ہے۔ از حد ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ (نصب الرایة، کتاب الصلاة: 389/1، حدیث: 38)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ لجهالة حال المهاجر المكي، وقد ذكر الخطابي عن الأئمة- الثوري، وابن المبارك، و ابن حنبل، وابن راهويه- أنهم ضعفوا هذا الحديث؛ لأن مهاجراً عندهم مجهول) .إسناده: حدثنا يحيى بن معين أن محمد بن جعفر حدثهم: ثنا شعبة قال:سمعت أبا قزعة يحدث عن المهاجر المكي.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير المهاجر، وهومجهول الحال، قد روى عنه غير أبي قزعة- واسمه سُويد بن حُجير- يحيى بنُ أبي كثير وجابر الجعفي، ولم يوثقه غير ابن حبان! وظاهر كلام الخطابي في المعالم - وهو الذي نقلته آنفاً- أن الأئمة المذكورين نصوا على جهالته. واللّه أعلم.والحديث أخرجه البيهقي (5/73) من طريق المصنف.ثم أخرجه هو، والنسائي (2/33) ، والترمذي (855) من طرق أخرى عن شعبة... به، وسكت عنه الترمذي!
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے پوچھا گیا کہ آدمی بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھائے (یا نہیں؟) انہوں نے کہا: میں نے یہودیوں کے علاوہ کسی کو ایسے کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (وہ لوگ بیت المقدس کو دیکھ کر ہاتھ اٹھاتے ہیں) اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں حج کیا تو آپ ﷺ نے ایسے نہیں کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی سند میں مہاجر بن عکرمہ مکی ہے۔ جو کہ مجہول ہے۔ اور اس مسئلے میں وار روایات میں کوئی بھی ایسی قوی نہیں ہے۔ جس سے بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ اُٹھانا مشروع ثابت ہوتا ہو۔ محض دعا کرنے کے بارے میں کچھ اخبار و آثار وارد ہیں۔ (نیل الأوطار: 42/5) ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ لاتُرفعُ الأيدي إلا في سبعِ مواطنَ صرف سات مقامات ایسے ہیں۔ جہاں ہاتھ اُٹھائے جایئں۔۔۔ اور ان میں ایک بیت اللہ کو دیکھ کر بھی ہے۔ از حد ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ (نصب الرایة، کتاب الصلاة: 389/1، حدیث: 38)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مہاجر مکی کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ ؓ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھاتا ہو تو انہوں نے کہا: میں سوائے یہود کے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھتا تھا، اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا، لیکن آپ ایسا نہیں کرتے تھے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : صحیح احادیث اور آثار سے بیت اللہ پر نظر پڑتے وقت ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir ibn 'Abdullah was asked about a man who looks at the House (the Ka'bah) and raises his hands (for prayer). He replied: I did not find anyone doing this except the Jews. We performed hajj along with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), but he did not do so.