Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding The Obligatory Tawaf)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1881.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ ﷺ کی طبیعت ناساز تھی چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی سواری پر (سوار ہو کر) طواف کیا۔ آپ ﷺ جب بھی حجر اسود کے پاس آتے تو اپنے عصا سے اس کو مس کرتے۔ پس جب آپ ﷺ اپنے طواف سے فارغ ہو گئے تو آپ ﷺ نے (اپنی اونٹنی کو) بٹھا دیا اور دو رکعتیں ادا کیں۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: اسناده-هيفما؛ يزيد بن أبي زياد- وهو: الهاشمي مولاهم- لايحتج به- كما قال المنذري-. وقد تفرد بقوله: وهو يشتكي.. فهو منكر.والحديث صحيح بدون هذه الزيادة؛ أخرجه الشيخان والمصنف في الكتاب الآخر (1640) ) .إسناده. حدثنا مسدد: ثنا خالد بن عبد الله: ثنا يزيد بن أبي زياد... به.قلمه: وهذا إسناد ضعيف؛ لسوء حفظ يزيد هذا وهو الهاشمي مولاهم- كما مضى مراراً. وقال المنذري هنا: لا يحتج به .والحد مِث أخرجه أحمد (1/304) ، والبيهقي (5/99- 100) من طرق أخرى عن يزيد... به.ثم قال أحمد (1/214) : ثنا هشيم: حدثنا يزيد بن أبي زياد... به؛ دون قوله: وهو يشتكي-وأشار البيهقي رحمه الله إلى أن هذه الزيادة منكرة فقال: وهذه زيادة تفرد بها- والله أعلم- يزيد بن أبي زياد، وقد بين جابرُ وابنُ عباس- في رواية أخرى عنه- وعائشةُ المعنى لطوافه راكباً .وحديث جابر الذي يشير إليه عند مسلم وغيره، وهو في الكتاب الآخر(1643) ، وحديث ابن عباس المشار إليه عند مسلم أيضاً، والمصنف هناك (1640و1647) ، وحديث عائشة رواه مسلم (4/68) .وفي هذه الأحاديث تعليل طوافه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ راكباً؛ ليتحاشى زحمة الناس وصرفهم عنه وليسألوه، وهذا خلاف الزيادة التي تفرد بها يزيد.ومما يؤكد نكارتها أنه خالفه خالد الحذاء، فرواه عن عكرمة... به؛ دون الزيادة.أخرجه البخاري (3/273) ، والبيهقي (5/99) . وكذلك رواه عبيد الله بن عبد الله عن ابن عباس.رواه الشيخان والمصنف في الكتاب الآخر (1640) .ثم وجدت للحديث طريقاً أخرى عند ابن عدي في الكامل (7/2646) ،لكن فيه يحيى بن أبي أُنيسة ضحيف.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ ﷺ کی طبیعت ناساز تھی چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی سواری پر (سوار ہو کر) طواف کیا۔ آپ ﷺ جب بھی حجر اسود کے پاس آتے تو اپنے عصا سے اس کو مس کرتے۔ پس جب آپ ﷺ اپنے طواف سے فارغ ہو گئے تو آپ ﷺ نے (اپنی اونٹنی کو) بٹھا دیا اور دو رکعتیں ادا کیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ آئے آپ کو کچھ تکلیف تھی چنانچہ آپ نے اپنی سواری پر بیٹھ کر طواف کیا۱؎، جب آپ ﷺ حجر اسود کے پاس آتے تو چھڑی سے اس کا استلام کرتے، جب آپ طواف سے فارغ ہو گئے تو اونٹ کو بٹھا دیا اور (طواف کی) دو رکعتیں پڑھیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث کی بخاری نے (حج ۷۴ میں) خالدالحذاء کے طریق سے روایت کی ہے مگر اس میں «وهو يشتكي» (تکلیف تھی) کا لفظ نہیں ہے، خالد ثقہ ہیں جب کہ یزید ضعیف ہیں، اسی لئے امام بخاری نے ان کی روایت نہیں لی ہے، مگر تبویب سے اشارہ اسی طرف کیا ہے، بہرحال سواری پر طواف کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں بلاسبب افضل نہیں ہے، خصوصا مسجد اور مطاف بن جانے کے بعد اب یہ ممکن نہیں رہا، نیز دیکھئے حاشیہ حدیث نمبر (۱۸۸۲)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas (RA) said: When the Apostle of Allah(صلی اللہ علیہ وسلم) came to Makkah he was ill. So, he performed the circumambulation on his Camel. He touched the corner (Black Stone) with a crooked stick as often as he came to it. When he finished the circumambulation, he made his Camel kneel down and offered two rak’ahs of prayer.