Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Not Performing Wudu' FRom [Food Which Had Been Cooked] Over Fire)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
189.
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دستی کا گوشت تناول فرمایا اور اپنے ہاتھ نیچے بچھی دری ( یا ٹاٹ ) سے صاف کیے ، پھر نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے ۔
تشریح:
شاید وہ کپڑا یا دری ہی اس قسم کی ہوگی کہ اس سے ہاتھ صاف کیا جا سکتا تھا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ گوشت وغیرہ کھانے کےبعد کلی کرنا اور پانی سے ہاتھ دھونا بھی ضروری نہیں بلکہ صرف کپڑے اور تولیے سے صاف کر لینا بھی درست ہے۔ اسی طرح ٹشو پیپرسے ہاتھ صاف کر لینا بھی کافی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصححه ابن حبان (1159) ) . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا أبو الأحوص: ثنا سماك عن عكرمة عن ابن عباس. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ إلا أنهم تكلموا في رواية سماك عن عكرمة؛ فذكروا أنها مضطربة، لكنهم استثنوا من ذلك رواية سفيان وشعبة عن سماك عن عكرمة، فصححوها، كما سبق بيانه في الكلام على هذا الإسناد نفسه لحديث أخر (رقم 61) . فهذا الحديث من صحيح حديثه؛ لأنه قد رواه سفيان أيضا عنه كما يأتي. والحديث أخرجه ابن ماجه أيضا (1/178) قال: حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة: ثنا أبو الأحوص... به. وأخرجه أحمد (1/326) قال: ثنا عبد الله بن الوليد: ثنا سفيان عن سماك... به؛ بلفظ: أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ توضأ للصلاة؛ فقال له بعض نسائه: اجلس فإن القدر قد نضجت، فناولته كتفآ، فأكل، ثم مسح يده، فصلى ولم يتوضأ. وهذا إسناد صحيح، وعبد الله بن الوليد: هو أبو محمد المكه المعروف بالعدني؛ وهو صدوق ربما أخطأ، كما قال الحافظ في التقريب . وقد تابعه أيوب عن عكرمة... به مختصراً؛ ولفظه: انتهس عرقاً، ثم صلى ولم يتوضأً. أخرجه أحمد (1/273) قال: حدثنا حسين: ثنا جرير عن أيوب... به. وهذا سند صحيح أيضا، وهو على شرط البخاري، وحسين: هو ابن محمد بن بَهْرام أبو أحمد المؤذب المروزي. وجرير: هو ابن حازم. وكذلك رواه زهير عن سماك بن حرب عن عكرمة... به مختصراً. أخرجه أحمد أيضا (1/267) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دستی کا گوشت تناول فرمایا اور اپنے ہاتھ نیچے بچھی دری ( یا ٹاٹ ) سے صاف کیے ، پھر نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے ۔
حدیث حاشیہ:
شاید وہ کپڑا یا دری ہی اس قسم کی ہوگی کہ اس سے ہاتھ صاف کیا جا سکتا تھا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ گوشت وغیرہ کھانے کےبعد کلی کرنا اور پانی سے ہاتھ دھونا بھی ضروری نہیں بلکہ صرف کپڑے اور تولیے سے صاف کر لینا بھی درست ہے۔ اسی طرح ٹشو پیپرسے ہاتھ صاف کر لینا بھی کافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کا شانہ کھایا پھر اپنا ہاتھ اس ٹاٹ سے پوچھا جو آپ کے نیچے بچھا ہوا تھا ، پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) took a shoulder (of goat's meat) and after wiping his hand with a cloth on which he was sitting, he got up and prayed.