Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: The Description Of The Prophet's (saws) Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1909.
جناب جعفر (صادق) ؓ نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد (محمد باقر ؓ) نے سیدنا جابر ؓ سے بیان کیا۔ اور یہ حدیث بیان کی۔ اور اپنی حدیث پر (وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلى) کی جگہ یہ بات اپنی طرف سے بڑھائی کہ آپ نے ان رکعات میں توحید (یعنی) «قل هو الله أحد» اور «قل يا أيها الكافرون» کی تلاوت کی (یہ جملہ مدرج ہے۔) اور اس میں بیان کیا کہ سیدنا علی ؓ نے یہ واقعہ کوفہ میں بیان کیا تھا۔ میرے والد (محمد بن علی ؓ) نے کہا کہ جابر نے یہ لفظ بھی نہیں کہے تھے کہ ”میں غصے کے عالم میں جلدی سے گیا تھا۔“ اور فاطمہ ؓ کا قصہ بیان کیا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه بنحوه، وليس فيه الإدارج المذكور إلا في قصة فاطمة، وهو الأرجح، وقد مضى في الكتاب برقم(1663) ) .إسناده: حدثنا يعقوب بن إبراهيم: ثنا يحيى بن سعيد القطان عن جعفر:حدثني أبي عن جابر... فذكر هذا الحديث.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وقد أخرجه أحمد وابن الجارودعن يحيى بن سعيد؛ كما تقدم برقم (1665) ، وفيه عندهما معنى الإدارج الذي صرح به المؤلف رحمه الله، والإدراج في قصة التحريش تقدم أيضاً في حديث حاتم ابن إسماعيل (1663) .وأما القراءة في الركعتين؛ فلم يدرجها، بل قال جعفر بن محمد بن علي:فكانْ أبي يقول: ولا أعلم ذكره إلا عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.وهذا أقرب إلى الجزم برفعه إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من الشك فيه؛ لأن العلم ينافي الشك كما قال النووي.ويؤيده أن مالكاً جزم به فقال: عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر...بلفظ:قرأ: (واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى) ، فصلى ركعتين، فقرأ فاتحةالكتاب و: (قل يا أيها الكافرون) و: (قل هو الله أحد) .أخرجه النسائي (2/40) ، والبيهقي (5/91) .ورواه الترمذي (869) من طريق آخر عن جعفر... به.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
جناب جعفر (صادق) ؓ نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد (محمد باقر ؓ) نے سیدنا جابر ؓ سے بیان کیا۔ اور یہ حدیث بیان کی۔ اور اپنی حدیث پر (وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلى) کی جگہ یہ بات اپنی طرف سے بڑھائی کہ آپ نے ان رکعات میں توحید (یعنی) «قل هو الله أحد» اور «قل يا أيها الكافرون» کی تلاوت کی (یہ جملہ مدرج ہے۔) اور اس میں بیان کیا کہ سیدنا علی ؓ نے یہ واقعہ کوفہ میں بیان کیا تھا۔ میرے والد (محمد بن علی ؓ) نے کہا کہ جابر نے یہ لفظ بھی نہیں کہے تھے کہ ”میں غصے کے عالم میں جلدی سے گیا تھا۔“ اور فاطمہ ؓ کا قصہ بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی جابر ؓ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں یعقوب نے (وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلى) پڑھنے کے بعد یہ ادراج کیا ہے کہ ”آپ نے ان دونوں رکعتوں میں توحید (یعنی «قل هو الله أحد» ) اور «قل يا أيها الكافرون» پڑھیں۔“ اور اس میں یہ ادراج بھی کیا کہ ”علی ؓ نے کوفہ میں کہا“ یعقوب کہتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا: جابر ؓ نے علی ؓ کا یہ قول ذکر نہیں کیا: (میں نبی اکرم ﷺ کے پاس فاطمہ ؓ کے خلاف غصہ دلانے چلا) اور یعقوب نے فاطمہ ؓ کا واقعہ ذکر کیا، میرے والد جعفر کا کہنا ہے کہ جابر ؓ نے اس حرف یعنی «فذهبت محرشا» کا ذکر نہیں کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
He aforesaid tradition has also been transmitted by Hafs bin Ghiyath from Ja’far with the same chain of narrators. But this version adds “Sacrifice in your dwellings”.