Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Standing At 'Arafah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1910.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ قریش اور ان کے اہل دین مزدلفہ میں وقوف کیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو ”حمس“ کہلاتے تھے۔ جبکہ دیگر سب عرب عرفات میں وقوف کرتے تھے۔ بیان کرتی ہیں کہ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ عرفات میں آ کر وقوف کریں، پھر وہاں سے لوٹیں، چنانچہ یہی تفسیر ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی (ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاس) ”پھر لوٹو وہیں سے جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں۔“
تشریح:
(الحمس۔ احمس) کی جمع ہے۔ معنی ہیں شجاع اور بہادر اور جاہلیت میں یہ قریش کنانہ اور ان کے متبعین کا لقب تھا۔ اس معنی میں کہ یہ اپنے دین میں بہت سخت تھے یا ممکن ہے۔ (الحمساء) کی نسبت سے یہ لقب اختیار کیا ہو جو کہ کعبہ کا ایک نام ہے۔ (تعلیق الشیخ محی الدین عبد الحمید نیز دیکھئے۔ حدیث 1905۔ فائدہ۔28-22)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو والبخاري.وصححه الترمذي) .إسناده: حدثنا هَنَّاد عن أبي معاوية عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير هَنَّاد- وهو ابن السَّرِيِّ التميمي الكوفي-، فهو على شرط مسلم ، وقد أخرجه هو والبخاري على مايأتي.والحديث أخرجه مسلم (4/43) ، والمسائي (2/45) ، والبيهقي (5/113) من طرق أخرى عن أبي معاوية... به.ومسلم أيضاً، والبخاري (8/150) ، والترمذي (884) - وقال: حديث حسن صحيح -، وابن حبان (1720- موارد) ، والبيهقي أيضاً من طرق أخرى عن هشام بن عروة... به؛ ولفظ ابن حبان: منى.. مكان: المزدلفة! وهوشاذ.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ قریش اور ان کے اہل دین مزدلفہ میں وقوف کیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو ”حمس“ کہلاتے تھے۔ جبکہ دیگر سب عرب عرفات میں وقوف کرتے تھے۔ بیان کرتی ہیں کہ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ عرفات میں آ کر وقوف کریں، پھر وہاں سے لوٹیں، چنانچہ یہی تفسیر ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی (ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاس) ”پھر لوٹو وہیں سے جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(الحمس۔ احمس) کی جمع ہے۔ معنی ہیں شجاع اور بہادر اور جاہلیت میں یہ قریش کنانہ اور ان کے متبعین کا لقب تھا۔ اس معنی میں کہ یہ اپنے دین میں بہت سخت تھے یا ممکن ہے۔ (الحمساء) کی نسبت سے یہ لقب اختیار کیا ہو جو کہ کعبہ کا ایک نام ہے۔ (تعلیق الشیخ محی الدین عبد الحمید نیز دیکھئے۔ حدیث 1905۔ فائدہ۔28-22)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ میں ہی ٹھہرتے تھے اور لوگ انہیں حمس یعنی بہادر و شجاع کہتے تھے جب کہ سارے عرب کے لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے، تو جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو عرفات آنے اور وہاں ٹھہرنے پھر وہاں سے مزدلفہ لوٹنے کا حکم دیا اور یہی حکم اس آیت میں ہے: (ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاس) (سورۃ البقرہ :۱۹۹) ”تم لوگ وہاں سے لوٹو جہاں سے سبھی لوگ لوٹتے ہیں۔ یعنی عرفات سے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aishah (RA) said “Quraish and those who followed their religion used to station at Al Muzdalifah and they were called Al Hums and the rest of Arabs used to station at ‘Arafah. When Islam came, Allah the most High commanded His Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) to go to ‘Arafah and station there then go quickly from it. That is in accordance with the words of Him Who is exalted “Then go quickly from where the people went quickly”.