Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Salat Al Jam' (Al-Muzdalifah))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1927.
زہری ؓ نے اپنی سند سے مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت کی اور کہا ایک ایک اقامت سے ان دونوں نمازوں کو جمع کیا۔ امام احمد ؓ نے کہا: وکیع نے بیان کیا کہ آپ نے ہر نماز (الگ) اقامت سے پڑھی۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه بإسناد آخر بلفظ:صلاها بإقامة واحدة.. وهو شاذ لمخالفته لهذه الرواية، ولحديث جابر الطويل المتقدم (1663) ، وهي التي لم يرو البخاري غيرها عن ابن عمر، وهي الآتية) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا حماد بن خالد عن ابن أبي ذئب عن الزهري... بإسناده ومعناه.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير حماد بن خالد- وهوالخَياط القرشي-، فهو على شرط مسلم وحده، وقد توبع كما يأتي في الرواية التالية.والحديث في المسند (2/157) ... بهذا السند والمتن؛ دون قوله: قال وكيع...واعلم أن هذا الحديث- مع صحته- قد اضطرب الرواة في ضبط أمرين منه:الأول: هل الإقامة كانت لكل من صلاتي المغرب والعشاء- كما في هذه الرواية- أم لهما معاً- كما في الروايات الآتية-؟ !والآخر: هل أذَّنَ لهما أم لا؟ فمنهم من نفى- كما في الرواية الثالثة-،ومنهم من أثبت- كما في الرواية الثامنة-.والصواب من ذلك كله: الأذان والإقامتان؛ لموافقةِ الروايات المثبتة لذلك حديثَ جابر الطويل المتقدم برقم (1663) ، ولأن رواية الإقامتين- وهي الثالثة-هي التي لم يعتمد غيرها الإمام البخاري، فلم يخرج سواها.ويشهد لها حديث أسامة بن زيد المتقدم برقم (1677 و 1681) ؛ ففيه التصريح بالإقامتين. وقد فصل الإمام ابن القيم في تهذيب السنن (2/400-402) القول في اضطراب هذا الحديث، وأقوال العلماء في المسألة، وانتهى إلى القول: والصحيح في ذلك كله: الأخذ بحديث جابر، وهو الجمع بينهما بأذان وإقامتين؛ لوجهين اثنين:أحدهما: أن الأحاديث سواه مضطربة، فهذا حديث ابن عمر في غايةالاضطراب... (ثم بين ذلك بياناً شافياً، ثم قال) .الوجه الثاني: أنه قد صح من حديث جابر في جمعه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعرفة،: أنه جمع بينهما بأذان وإقامتين، ولم يأت في حديث ثابت قط خلافه. والجمع بين الصلاتين بمزدلفة كالجمع بينهما بعرفة ، لا يفترقان إلا في التقديم والتأخير، فلوفرضنا تدافع أحاديث الجمع بمزدلفة؛ لأخذنا حكَم الجمع من عرفة .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
زہری ؓ نے اپنی سند سے مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت کی اور کہا ایک ایک اقامت سے ان دونوں نمازوں کو جمع کیا۔ امام احمد ؓ نے کہا: وکیع نے بیان کیا کہ آپ نے ہر نماز (الگ) اقامت سے پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی زہری سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے البتہ اس میں ہے کہ ایک ہی اقامت سے دونوں کو جمع کیا۔ احمد کہتے ہیں: وکیع نے کہا: ہر نماز الگ الگ اقامت سے پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The aforesaid tradition has been transmitted by Al Zuhri through a different chain of narrators. This version adds “Each prayer with an iqamah”. Ahmad reported on the authority of Waki’ “he offered each prayer with a single iqamah”.