Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Camping At Mina)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1951.
عبدالرحمٰن بن معاذ ؓ ایک صحابی سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے منٰی میں لوگوں کو خطبہ دیا اور انہیں اپنے اپنے مقامات پر اترنے کا ارشاد فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مہاجرین یہاں پڑاؤ کریں۔“ اور قبلہ کی جانب دائیں طرف اشارہ فرمایا۔ ”اور انصار یہاں پڑاؤ کریں۔“ اور قبلہ کی بائیں طرف اشارہ فرمایا۔ ”اور دیگر لوگ ان کے ارد گرد اتریں۔“
تشریح:
یہ مقامات منی کی مسجد خیف سے قبلہ کی طرف دائیں اوربائیں مراد ہیں۔ جیسے کہ آئندہ حدیث نمبر 1957 میں آرہا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وجهالة الصحابي لا تضر،وعبد الرحمن بن معاذ صحابي، ولم يذكر الرجل في رواية عنه، تأتي برقم (1710) ، وهو الصحيح عند البيهقي) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا معمر عن حُمَيْد الأعرج عن محمد بن إبراهيم التيمي عن عبد الرحمن بن معاذ.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. غير الرجل الذي لم يُسَم،ولا يضرُّ؛ فإنه صحابي، وكلهم عدول.وعبد الرحمن بن معاذ صحابي أيضاً.وقد خولف معمر في إسناده، فرواه عبد الوارث عن حميد الأعرج... به؛ إلاأنه لم يذكر الرجل في إسناده، وسيأتي بعد ثلاثة أبواب برقم (1710) . وقال البيهقي: وهذا هو الصحيح؛ عبد الرحمن بن معاذ له صحبة. وزعموا أن محمد بن إبراهيم التيمي لم يدركه، وأن روايته عنه مرسلة. والله أعلم !
قلت: لم أر هذا الإعلال لغير البيهقي! وقد ذكر المزي عبد الرحمن بن معاذفي شيوخ محمد بن إبراهيم، ولما ذكر الحافظ في تهذيبه الذين أرسل عنهم محمد بن إبراهيم؛ لم يذكر فيهم عبد الرحمن هذا! والله أعلم.والحديث أخرجه البيهقي (5/138) من طريق المؤلف.وهو في المسند (4/61 و 5/374) ... بهذا الإسناد.وقد خالف معمراً عبد الوارث بن سعيد وسفيان بن عيينة؛ فلم يذكرا في السند: عن رجل؛ كما سيأتي هناك؛ وهو الصحيح كما قال البيهقي.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
عبدالرحمٰن بن معاذ ؓ ایک صحابی سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے منٰی میں لوگوں کو خطبہ دیا اور انہیں اپنے اپنے مقامات پر اترنے کا ارشاد فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مہاجرین یہاں پڑاؤ کریں۔“ اور قبلہ کی جانب دائیں طرف اشارہ فرمایا۔ ”اور انصار یہاں پڑاؤ کریں۔“ اور قبلہ کی بائیں طرف اشارہ فرمایا۔ ”اور دیگر لوگ ان کے ارد گرد اتریں۔“
حدیث حاشیہ:
یہ مقامات منی کی مسجد خیف سے قبلہ کی طرف دائیں اوربائیں مراد ہیں۔ جیسے کہ آئندہ حدیث نمبر 1957 میں آرہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن معاذ سے روایت ہے وہ رسول ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے منیٰ میں لوگوں سے خطاب کیا، اور انہیں ان کے ٹھکانوں میں اتارا، آپ نے فرمایا: ”مہاجرین یہاں اتریں اور قبلہ کے دائیں جانب اشارہ کیا، اور انصار یہاں اتریں، اور قبلے کے بائیں جانب اشارہ کیا، پھر باقی لوگ ان کے اردگرد اتریں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abdur Rahman ibn Mu'adh said that he heard a man from the Companions of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) say: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) addressed the people at Mina and he made them stay in their dwellings. He then said: The Muhajirun (Emigrants) should stay here, and he made a sign to the right side of the qiblah, and the Ansar (the Helpers) here, and he made a sign to the left side of the qiblah; the people should stay around them.