Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: What Time Should The Sermon Be Delivered On The Day Of The Sacrifice)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1956.
جناب رافع بن عمرو مزنی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ منٰی میں اپنے سفید خچر پر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے جبکہ دن اونچا آ چکا تھا اور سیدنا علی ؓ آپ ﷺ کی بات آگے پہنچا رہے تھے۔ لوگ کچھ بیٹھے تھے اور کچھ کھڑے تھے۔
تشریح:
(1) امام حج کا اس دن خطبہ دینا مستحب ہے۔ (2) آپ ﷺ نے ایک موقع پر اپنی انٹنی پر سے خطبہ دیا اور دوسرے موقع پر سفید خچر پر سے، اس میں تعارض نہیں ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح) .إسناده: حدثنا عبد الوهاب بن عبد الرحيم الدمشقي: ثنا مروان عن هلال ابن عامر المُزَني: حدثني رافع بن عمرو المُزَنِيُّ.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات؛ ومروان هو ابن معاوية الفَزَارِي.والحديث أخرجه البيهقي (5/140) من طريق المؤلف.ثم أخرجه من طريق البخاري، وهذا في تاريخه (2/1/302/1026) عن أبي حفص (وفي البيهقي: أبي جعفر) : حدثنا مروان... به. وقال البخاري: وتابعه عبد الرحمن بن مَغْرَاء. وقال أبو معاوية: عن هلال عن أبيه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. والأول أصح .
قلت: رواية أبي معاوية في المسند (3/477) : ثنا أبو معاوية قال: ثنا هلال ابن عامر عن أبيه... به.ثم قال: ثنا محمد بن عبيد: حدثنا شيخ من بني فَزَارَةَ عن هلال بن عامر... به.وهذا الشيخ الفزاري يحتمل أنه مروان بن معاوية نفسه. فإن صح ذلك؛ فيكون قد تابع أبا معاوية الضرير على روايته عن هلال عن أبيه. فالله أعلم.وسيأتي حديث أبي معاوية عند المصنف في اللباس [21- باب].
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
جناب رافع بن عمرو مزنی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ منٰی میں اپنے سفید خچر پر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے جبکہ دن اونچا آ چکا تھا اور سیدنا علی ؓ آپ ﷺ کی بات آگے پہنچا رہے تھے۔ لوگ کچھ بیٹھے تھے اور کچھ کھڑے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام حج کا اس دن خطبہ دینا مستحب ہے۔ (2) آپ ﷺ نے ایک موقع پر اپنی انٹنی پر سے خطبہ دیا اور دوسرے موقع پر سفید خچر پر سے، اس میں تعارض نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
رافع بن عمرو المزنی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منیٰ میں ایک سفید خچر پر سوار لوگوں کو خطبہ دیتے سنا جس وقت آفتاب بلند ہو چکا تھا اور علی ؓ آپ کی طرف سے اسے لوگوں کو پہنچا۱؎ رہے تھے اور دور والوں کو بتا رہے تھے، کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ کھڑے تھے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر وہی کلمات بلند آواز سے دہرا رہے تھے تا کہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہیں وہ بھی اسے سن لیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi' ibn Amr al-Muzani: I saw the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) addressing the people at Mina (on the day of sacrifice) when the sun rose high (i.e. in the forenoon) on a white mule, and 'Ali (RA) was interpreting on his behalf; some people were standing and some sitting.