Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding Stoning The Jimar)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1966.
سلیمان بن عمرو بن الاحوص کی والدہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وادی کے درمیان سے جمرہ کو کنکریاں مارتے دیکھا جب کہ آپ سواری پر تھے۔ آپ ہر کنکری کے ساتھ «الله اكبر» کہتے تھے۔ ایک شخص آپ کے پیچھے سے آپ کو چھپائے ہوئے تھا۔ میں نے اس شخص کے متعلق پوچھا تو کہا: فضل بن عباس ؓ ہیں۔ لوگوں نے بہت بھیڑ کر دی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! ایک دوسرے کو قتل مت کرو۔ اور جب تم جمرے کو کنکریاں مارو تو چھوٹی چھوٹی مارو۔“
تشریح:
(1) الجمرۃ کے لغت میں کئی معنی ہیں: دہکتا ہوا کوئلہ ایسا قبیلہ جو کسی اور سے ملا نہ ہو اور تین سو یا ایک ہزار سورماؤں کی جماعت کو جمرہ کہتے ہیں۔ ایک قبیلے کا دوسروں کے مقابلہ میں جمع ہو جانا بھی جمرہ کہلاتا ہے۔ اور اسی مناسبت سے ان جگہوں کو جمرہ یا جمرات کہتے ہیں جہاں حاجی کنکریاں مارتے ہیں۔ یہ مقام اصل میں چھوٹی کنکریاں کے ڈھیرسے تھے۔ (چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے) جو مکہ کی جانب میں ہے اسے جمرہ کبریٰ اور جمرۂ عقبہ کہتے ہیں۔ جومنی ٰ کی طرف ہے اسے جمرۂ صغریٰ اور ان کے درمیان والے کو جمرۂ وسطی کہا جاتا ہے۔ (2)[حصى الخذف] کی توضیح کے لیے دیکھیے (حدیث: 1905فائدہ:35)
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث حسن) .إسناده: حدثنا إبراهيم بن مهدي: حدثني علي بن مُسْهِرٍ عن يزيد بن أبي زياد: أخبرنا سليمان بن عمرو بن الأحوص.
قلت: وهذا إسناد فيه ضعف؛ سليمان بن عمرو بن الأحوص فيه جهالة، لم يوثقه غير ابن حبان، وروى عنه شَبِيبُ بن غَرْقَدٍ أيضاً.ويزيد بن أبي زياد- وهو الهاشمي مولاهم- سيئ الحفظ. وبه أعله المنذري.لكن الحديث قد جاء كله أو جله مفرقاً في أحاديث:فرمي الجمرة- وهي جمرة العقبة-؛ كما في الرواية الثانية في حديث جابر الطويل المتقدم (1663) . ومثله في رواية لمسلم في حديث ابن مسعود الآتي قريباً (1723) .وقولها: ورجل من خلفه... أي: رديفه؛ في حديث جابر المشار إليه آنفاً.وفيه التكبير مع كل حصاة. ومثله في حديث عائشة الآتي قريباً (1722) .وسائره له طريق أخرى بلفظ: يا أيها الناس! عليكم بالسكينة والوقار، وعليكم بمثل حصى الخذف .أخرجه أحمد (5/379) من طريق ليث عن عبد الله بن شداد عن أم جندب الأزْدِية:أنها سمعت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حيث أفاض قال...وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ وليث: هو ابن سعدالإمام.ويشهد له حديث جابر المتقدم برقم (1699) .والحديث أخرجه البيهقي (5/130) من طريق المصنف.ثم أخرجه هو (5/128) ، وابن ماجه (2/242 و 243) ، وأحمد (3/503و 5/379) من طرق أخرى عن يزيد بن أبي زياد... به نحوه.ومن طرقه ما يأتي.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سلیمان بن عمرو بن الاحوص کی والدہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وادی کے درمیان سے جمرہ کو کنکریاں مارتے دیکھا جب کہ آپ سواری پر تھے۔ آپ ہر کنکری کے ساتھ «الله اكبر» کہتے تھے۔ ایک شخص آپ کے پیچھے سے آپ کو چھپائے ہوئے تھا۔ میں نے اس شخص کے متعلق پوچھا تو کہا: فضل بن عباس ؓ ہیں۔ لوگوں نے بہت بھیڑ کر دی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! ایک دوسرے کو قتل مت کرو۔ اور جب تم جمرے کو کنکریاں مارو تو چھوٹی چھوٹی مارو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) الجمرۃ کے لغت میں کئی معنی ہیں: دہکتا ہوا کوئلہ ایسا قبیلہ جو کسی اور سے ملا نہ ہو اور تین سو یا ایک ہزار سورماؤں کی جماعت کو جمرہ کہتے ہیں۔ ایک قبیلے کا دوسروں کے مقابلہ میں جمع ہو جانا بھی جمرہ کہلاتا ہے۔ اور اسی مناسبت سے ان جگہوں کو جمرہ یا جمرات کہتے ہیں جہاں حاجی کنکریاں مارتے ہیں۔ یہ مقام اصل میں چھوٹی کنکریاں کے ڈھیرسے تھے۔ (چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے) جو مکہ کی جانب میں ہے اسے جمرہ کبریٰ اور جمرۂ عقبہ کہتے ہیں۔ جومنی ٰ کی طرف ہے اسے جمرۂ صغریٰ اور ان کے درمیان والے کو جمرۂ وسطی کہا جاتا ہے۔ (2)[حصى الخذف] کی توضیح کے لیے دیکھیے (حدیث: 1905فائدہ:35)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
والدہ سلیمان بن عمرو بن احوص ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سوار ہو کر بطن وادی سے جمرہ پر رمی کرتے دیکھا، آپ ﷺ ہر کنکری پر تکبیر کہتے تھے، ایک شخص آپ کے پیچھے تھا، وہ آپ پر آڑ کر رہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا: فضل بن عباس ؓ ہیں، اور لوگوں کی بھیڑ ہو گئی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! تم میں سے کوئی کسی کو قتل نہ کرے (یعنی بھیڑ کی وجہ سے ایک دوسرے کو کچل نہ ڈالے) اور جب تم رمی کرو تو ایسی چھوٹی کنکریوں سے مارو جنہیں تم دونوں انگلیوں کے بیچ رکھ سکو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sulaiman b. 'Amr b. al-Ahwas:On the authority of his mother: I saw the Messenger of Allah (ﷺ) throwing pebbles at the jamrah from the botton of wadi (valley) while he was riding (on a camel). He was uttering the takbir (Allah is most great) with each pebble. A man behind him was shading him. I asked about the man. They (the people) said: He is al-Fadl b. al-'Abbas. The people crowded. The Prophet (ﷺ) said: 'O people, do not kill each other ; when you throw pebbled at the jamrah, throw small pebbles.