Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding Stoning The Jimar)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1978.
سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی (دسویں تاریخ کو) جمرہ عقبہ کی رمی کر لے تو اس کے لیے بیویوں کے سوا ہر شے حلال ہو گئی۔“ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: یہ حدیث ضعیف ہے۔ حجاج (حجاج بن ارطاۃ) نے زہری کو نہ دیکھا ہے اور نہ اس سے کچھ سنا ہے۔
تشریح:
اس حدیث کی صحت وضعف میں اگرچہ اختلاف ہے تاہم دیگر احادیث سے مسئلہ اسی طرح ثابت ہے کہ دسویں تاریخ کو رمی کے بعد حاجی کے لیے بیوی کے علاوہ دیگر ممنوعات حلال ہو جاتی ہیں۔ اسے اصطلاحاً حل ناقص یا حل اصغرکہتے ہیں طواف افاضہ کے بعد بیوی سے بھی مباشرت (ہم بستری) ہو سکتی ہے اور اسے حل کامل یا حل اکبر کہتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح) .إسناده: حدثنا مسدد: ثنا عبد الواحد بن زياد: ثنا الحجاج عن الزهري عن عمرة بنت عبد الرحمن عن عائشة.قال أبو داود: هذا حديث ضعيف؛ الحجاج لم يَرَ الزهري ولم يسمع منه .
قلت: وهو كما قال رحمه الله، ولذلك رُمِيَ الحجاج بالتدليس، وكان يخطئ أيضاً، ولذلك قال الحافظ: صدوق كثير الخطأ والتدليس .وقد اضطرب في رواية هذا الحديث إسناداً ومتناً على وجوه، ذكرتها في الأحاديث الضعيفة (1013) ، وباختصار في الإرواء (1046) . وقال البيهقي عقبه: وهذا من تخليطات الحجاج بن أرطاة، وإنما الحديث عن عمرة عن عائشةرضي الله عنها عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كما رواه سائر الناس عن عائشة رضي الله عنها .
قلت: حديث عمرة أخرجه مسلم وغيره، وهو مخرج في الإرواء (1047) مع سائر طرقه عن عائشة. ومنها طريق القاسم المتقدم في أول المناسك (1532) . وفي بعض طرقه عنها:طيبت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.. حين أحرم، وحين رمى جمرة العقبة يوم النحر قبل أن يطوف بالبيت.وفي أخرى من طريق سالم عن ابن عمر قال: سمعت عمر رضي الله عنه يقول:إذا رميتم الجمرة وذبحتم وحلقتم؛ فقد حل كل شيء؛ إلا النساء والطيب.قال سالم: وقالت عائشة رضي الله عنها: حلَّ له كل شيء إلا النساء. قال:وقالت: أنا طيبت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ يعني: لحله.زاد الحميدي (212) :بعدما رمى الجمرة وقبل أن يزور. قال سالم: وسنة رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أحق أن تتبَعَ.وسنده صحيح على شرط الشيخين.وهذا شاهد قوي لحديث الحجاج، وإن كان يختلف عنه في اللفظ؛ فإن هذامن فعله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وذاك من قوله.لكن له شاهدان آخران من قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أحدهما: من حديث ابن عباس... مرفوعاً مثله: أخرجه أحمد بإسناد رجاله ثقات كلهم؛ إلا أنه منقطع كما بينته في الصحيحة (239) .والآخر: من حديث أم سليمة... مرفوعاً مثله أيضاً؛ وفيه زيادة سيأتي الكلام عند تخريج حديثها في باب الإفاضة في الحج رقم (1745) .وله شاهد آخر، يتردد النظر بين أن يكون من فعله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أو قوله؛ وهو ما أخرجه الحاكم (1/461) ، وعنه البيهقي (5/122) من حديث عبد الله بن الزبير رضي الله عنه قال:من سنة الحج: أن يصلَيَ الإمام الظهر والعصر والمغرب والعشاء الآخرة والصبح بمنى.. فإذا رمى الجمرة الكبرى ؛ حَلَّ له كل شيء إلا النساء والطيب؛ حتى يزورالبيت. وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي!وهو خطأ بين؛ فإن فيه إبراهيم بن عبد الله- وهو ابن بشار الواسطي، الراوي عن يزيد بن هارون- ترجمه الخطيب (6/120) . ولم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلاً.لكن أخرجه ابن خزيمة (2800) من غير طريقه.فلعل قوله: والطيب.. وهم منه، كما تدل عليه سائر الأحاديث؛ فإنه موقوف على عمر، الذي ردته عائشة، فيكون قد دخل عليه حديث في حديث ويؤيده أن الطحاوي رواه (1/421) بإسناد أصح منه...موقوفاً على ابن الزبير؛ دون ذكرالطيب. والله أعلم.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی (دسویں تاریخ کو) جمرہ عقبہ کی رمی کر لے تو اس کے لیے بیویوں کے سوا ہر شے حلال ہو گئی۔“ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: یہ حدیث ضعیف ہے۔ حجاج (حجاج بن ارطاۃ) نے زہری کو نہ دیکھا ہے اور نہ اس سے کچھ سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی صحت وضعف میں اگرچہ اختلاف ہے تاہم دیگر احادیث سے مسئلہ اسی طرح ثابت ہے کہ دسویں تاریخ کو رمی کے بعد حاجی کے لیے بیوی کے علاوہ دیگر ممنوعات حلال ہو جاتی ہیں۔ اسے اصطلاحاً حل ناقص یا حل اصغرکہتے ہیں طواف افاضہ کے بعد بیوی سے بھی مباشرت (ہم بستری) ہو سکتی ہے اور اسے حل کامل یا حل اکبر کہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی جمرہ عقبہ کی رمی کر لے تو اس کے لیے سوائے عورتوں کے ہر چیز حلال ہے۔“۱؎ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ضعیف ہے، حجاج نے نہ تو زہری کو دیکھا ہے اور نہ ہی ان سے سنا ہے۲؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: بیویوں سے صحبت یا بوس وکنار اس وقت جائز ہو گا جب حاجی طواف زیارت سے فارغ ہو جائے۔ ۲؎ : مسند احمد کی سند میں زہری کی جگہ ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم ہیں حجاج بن أرطاۃ کا ان سے سماع ثابت ہے، نیز حدیث کے دیگر شواہد بھی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: When one of you throws pebbles at the last jamrah (Jamrat al-Aqabah), everything becomes lawful for him except women (sexual intercourse). Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This is a weak tradition. The narrator al-Hajjaj neither saw al-Zuhri nor heard tradition from him.