Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' From Sleeping)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
199.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ کسی کام میں مشغول ہو گئے اور نماز (عشاء) میں بہت تاخیر کر دی حتیٰ کہ ہم لوگ مسجد میں سو گئے، پھر جاگے، پھر سو گئے، پھر جاگے، پھر سو گئے، پھر کہیں آپ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا ”تمہارے علاوہ اور کوئی نماز کا انتظار نہیں کر رہا۔“
تشریح:
1۔ صحابہ کرام کا یہ سونا بیٹھےبیٹھے تھا نہ کہ لیٹ کر۔ جیسےکہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ 2۔ نمازعشاء امت مسلمہ کا خاصہ ہے‘ نیز اس کو دوسری نمازوں کی بہ نسبت اول وقت کی بجائے دیرسے پڑھنا مستحب ہے۔ جیسا کہ آنے والی حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ 3۔ محض نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا‘ الا یہ کہ لیٹ کر ہو یا کسی ایسےسہارے سے ہو کہ اعضاء ڈھیلےہو جائیں۔ رسول اللہﷺکی خصوصیت تھی کہ نیند میں بھی آب کا وضو قائم رہتا تھا۔ درج ذیل احادیث اس کی واضح دلیل ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: اسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة في صحاحهم ) . إسناده: حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل قال: ثنا عبد الرزاق: ثنا ابن جريج قال: أخبرني نافع قال: ثتي عبد الله بن عمر. وهذا إسناد صحيح على شرطهما. والحديث في مسند أحمد (2/88) ... بهذا السند. وهو في الصحيحين ، و أبي عوانة (1/368) من طرق عن عبد الرزاق... وأخرجه أبو عوانة، والنسائي (1/93) من طريق منصور عن الحكم عن نافع..- به نحوه؛ وكذلك رواه مسلم. وأخرجه أحمد (2/126) من طريق فليح عن نافع، وزاد: وإنما حَبَسَنا لِوَفْد جاءه. وهوعلى شرطهما.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ کسی کام میں مشغول ہو گئے اور نماز (عشاء) میں بہت تاخیر کر دی حتیٰ کہ ہم لوگ مسجد میں سو گئے، پھر جاگے، پھر سو گئے، پھر جاگے، پھر سو گئے، پھر کہیں آپ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا ”تمہارے علاوہ اور کوئی نماز کا انتظار نہیں کر رہا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ صحابہ کرام کا یہ سونا بیٹھےبیٹھے تھا نہ کہ لیٹ کر۔ جیسےکہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ 2۔ نمازعشاء امت مسلمہ کا خاصہ ہے‘ نیز اس کو دوسری نمازوں کی بہ نسبت اول وقت کی بجائے دیرسے پڑھنا مستحب ہے۔ جیسا کہ آنے والی حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ 3۔ محض نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا‘ الا یہ کہ لیٹ کر ہو یا کسی ایسےسہارے سے ہو کہ اعضاء ڈھیلےہو جائیں۔ رسول اللہﷺکی خصوصیت تھی کہ نیند میں بھی آب کا وضو قائم رہتا تھا۔ درج ذیل احادیث اس کی واضح دلیل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے لشکر کی تیاری میں مصروفیت کی بناء پر عشاء کی نماز میں دیر کر دی، یہاں تک کہ ہم مسجد میں سو گئے، پھر جاگے پھر سو گئے، پھر جاگے پھر سو گئے، پھر آپ ﷺ نکلے اور فرمایا: ”(اس وقت) تمہارے علاوہ کوئی اور نماز کا انتظار نہیں کر رہا ہے“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abd Allah b. ‘Umar (RA) said: One night the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) was busy and he delayed the night (isha) prayer so much so that we dosed in the mosque. We awoke, then dozed, and again awoke and again dozed. He (the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم) then came upon us and said: There is none except you who are waiting for prayer.