باب: قضائے حاجت (پیشاب، پاخانے) کے لئے لوگوں سےعلیحدہ ہونے اور دور ہونے کابیان
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Seclusion While Relieving Oneself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو جب پیشاب، پاخانے کی حاجت ہوتی تو (آبادی سے) دور چلے جاتے حتیٰ کہ آپ ﷺ کو کوئی نہ دیکھ سکتا۔
تشریح:
فوائد ومسائل: دوسری روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم پہلی حدیث صحیح ہے، اس میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے۔ اس سے حسب ذیل مسائل کا اثبات ہوتا ہے: (1) دیہات میں یعنی کھلے علاقے میں قضائے حاجت کے لیے آبادی سے دور جانا ضروری ہے تاکہ کسی شخص کی نظر نہ پڑے۔ شہروں میں چونکہ باپردہ بیت الخلا بنے ہوتے ہیں، اس لیے وہاں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ (2) نبی ﷺ کا معمول مبارک انسانی اور اسلامی فطرت کا آئینہ دار ہے جس میں شرمگاہ کو انسانی نظر سے محفوظ رکھنے کے علاوہ ماحول کی صفائی ستھرائی کے اہتمام کا بھی درس ملتا ہے اور مزید یہ کہ آبادی کے ماحول کو کسی طرح بھی آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔ (3) یہ اور اس قسم کی دیگر احادیث واضح کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عام انسانی اور بشری تقاضوں سے بالاتر نہ تھے۔ (4) نیز آپ حیاو وقار کا عظیم پیکر تھے۔ (5) ان احادیث میں اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کی بالغ نظری بھی ملاحظہ ہو کہ انہوں نے نبی ﷺ کی نشست وبرخاست تک کے ایک ایک پہلو کو کس دقت نظر اور شرعی حیثیت سے ملاحظہ کیا ، اسے اپنے اذہان میں محفوظ رکھا اور امت تک پہنچایا۔(رضی اللہ عنہم)
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح) .
إسناده: أخرجه من طريق إسماعيل بن عبد الملك عن أبي الزبير عنه. وهذا إسناد ضعيف: إسماعيل بن عبد الملك صدوق كثير الوهم، وهو ابن أبي الصفَيْراء- بالقاء-. وأبو الزبير مدلس، وقد عنعنه. ومن هذا الوجه: أخرجه ابن ماجه أيضا، والحاكم والبيهقي، وله عنده تتمة. لكن الحديث صحيح لشواهده الكثيرة؛ منها الذي قبله. ومنها: عن عبد الرحمن بن أبي قرَاد: عند النسائي وغيره بسند صحيح.
والحديث قال في المجموع (2/77) : فيه ضعف يسير، وسكت عليه أبو داود؛ فهو حسن عنده .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو جب پیشاب، پاخانے کی حاجت ہوتی تو (آبادی سے) دور چلے جاتے حتیٰ کہ آپ ﷺ کو کوئی نہ دیکھ سکتا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: دوسری روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم پہلی حدیث صحیح ہے، اس میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے۔ اس سے حسب ذیل مسائل کا اثبات ہوتا ہے: (1) دیہات میں یعنی کھلے علاقے میں قضائے حاجت کے لیے آبادی سے دور جانا ضروری ہے تاکہ کسی شخص کی نظر نہ پڑے۔ شہروں میں چونکہ باپردہ بیت الخلا بنے ہوتے ہیں، اس لیے وہاں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ (2) نبی ﷺ کا معمول مبارک انسانی اور اسلامی فطرت کا آئینہ دار ہے جس میں شرمگاہ کو انسانی نظر سے محفوظ رکھنے کے علاوہ ماحول کی صفائی ستھرائی کے اہتمام کا بھی درس ملتا ہے اور مزید یہ کہ آبادی کے ماحول کو کسی طرح بھی آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔ (3) یہ اور اس قسم کی دیگر احادیث واضح کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عام انسانی اور بشری تقاضوں سے بالاتر نہ تھے۔ (4) نیز آپ حیاو وقار کا عظیم پیکر تھے۔ (5) ان احادیث میں اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کی بالغ نظری بھی ملاحظہ ہو کہ انہوں نے نبی ﷺ کی نشست وبرخاست تک کے ایک ایک پہلو کو کس دقت نظر اور شرعی حیثیت سے ملاحظہ کیا ، اسے اپنے اذہان میں محفوظ رکھا اور امت تک پہنچایا۔(رضی اللہ عنہم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کا ارادہ کرتے تو (اتنی دور) جاتے کہ کوئی آپ ﷺ کو دیکھ نہ پاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir ibn 'Abdullah (RA): When the Prophet (ﷺ) felt the need of relieving himself, he went far off where no one could see him.