Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Camping In The Valley Of Al-Muhassab)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2010.
سیدنا اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ حج کے موقع پر میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کل کہاں قیام فرمائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بھلا عقیل نے ہمارے لیے کوئی منزل رہنے بھی دی ہے؟“ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہم خیف بنی کنانہ میں قیام کریں گے، جہاں قریشیوں نے کفر پر آپس میں معاہدہ کیا تھا۔“ یعنی وادی محصب میں۔ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنی کنانہ نے قریشیوں کے ساتھ بنی ہاشم کے خلاف یہ قسمیں اٹھائی تھیں کہ ان سے نکاح شادی کریں گے نہ خرید و فروخت اور نہ انہیں کوئی جگہ دیں گے۔ زہری نے کہا: ”خیف“ وادی ہے۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے والد کا ترکہ ہجرت کی بنا پر چھوڑ دیا تھا۔ اور ابو طالب کی جائیداد طالب اور عقیل کو ملی تھی۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بوجہ مسلمان ہونے کے اس کے وارث نہ ہوئے تھے۔ اور پھر طالب بد ر کے موقع پرلا پتہ ہوگیا۔ تو عقیل نے تمام گھر پر قبضہ کرلیا۔ 2۔ وادی محصب (ابطح) میں اترنا اظہار تشکر کے طور پر تھا۔ کہ یہیں قریش نے نبی کریمﷺ اور مسلمانوں کے بایئکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔ آج اللہ نے اس کے آثار مٹا کر نتیجہ الٹ دیا تھا۔ یعنی اللہ نے ان مقامات کو اسلام کا مرکز بنا دیا تھا۔ اور مسلمان ان پر غالب آگئے تھے۔ اسی لئے یہاں شکرانے کے طو ر پر اُترنا مستحب گردانا جاتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا معمر عن الزهري عن علي بن حسين عن عمرو بن عثمان عن أسامة بن زيد.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.والحديث في المسند (5/202) ... بهذا السند والمتن.وأخرجه البخاري (6/131- 132) ، ومسلم (4/108) ، وابن ماجه(2/221) ، والبيهقي (5/160) من طرق أخرى عن عبد الرزاق... به.وتابعه يونس بن يزيد عن ابن شهاب... به نحوه مختصراً.أخرجه البخاري (3/354) ، ومسلم، وابن ماجه (2/164) .وتابعه محمد بن أبي حفصة أيضاً: عند أحمد (5/201) ، والبخاري(8/11) ، ومسلم- وقرن معه زمعة بن صالح- وقالا:وذلك زمن الفتح.ورجح الحافظ رواية معمر، فقال: ومعمر أوثق وأتقن من محمد بن أبي حفصة .
قلت: لكن مع ابن أبي حفصة: زمعة بن صالح، وهذا وإن كان في حفظه ضعف، فمتابعته لا بأس بها.وقد يجمع بين الروايتين بتعدد القصة. والله أعلم.ويشهد لرواية معمر: حديث أبي هريرة الآتي:
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ حج کے موقع پر میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کل کہاں قیام فرمائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بھلا عقیل نے ہمارے لیے کوئی منزل رہنے بھی دی ہے؟“ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہم خیف بنی کنانہ میں قیام کریں گے، جہاں قریشیوں نے کفر پر آپس میں معاہدہ کیا تھا۔“ یعنی وادی محصب میں۔ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنی کنانہ نے قریشیوں کے ساتھ بنی ہاشم کے خلاف یہ قسمیں اٹھائی تھیں کہ ان سے نکاح شادی کریں گے نہ خرید و فروخت اور نہ انہیں کوئی جگہ دیں گے۔ زہری نے کہا: ”خیف“ وادی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے والد کا ترکہ ہجرت کی بنا پر چھوڑ دیا تھا۔ اور ابو طالب کی جائیداد طالب اور عقیل کو ملی تھی۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بوجہ مسلمان ہونے کے اس کے وارث نہ ہوئے تھے۔ اور پھر طالب بد ر کے موقع پرلا پتہ ہوگیا۔ تو عقیل نے تمام گھر پر قبضہ کرلیا۔ 2۔ وادی محصب (ابطح) میں اترنا اظہار تشکر کے طور پر تھا۔ کہ یہیں قریش نے نبی کریمﷺ اور مسلمانوں کے بایئکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔ آج اللہ نے اس کے آثار مٹا کر نتیجہ الٹ دیا تھا۔ یعنی اللہ نے ان مقامات کو اسلام کا مرکز بنا دیا تھا۔ اور مسلمان ان پر غالب آگئے تھے۔ اسی لئے یہاں شکرانے کے طو ر پر اُترنا مستحب گردانا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کل حج میں کہاں اتریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا عقیل نے کوئی گھر ہمارے لیے (مکہ میں) چھوڑا ہے؟“ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہم خیف بنو کنانہ میں اتریں گے جہاں قریش نے کفر پر عہد کیا تھا (یعنی وادی محصب میں)۱؎۔“ اور وہ یہ کہ بنو کنانہ نے قریش سے بنی ہاشم کے خلاف قسم کھائی تھی کہ وہ ان سے نہ شادی بیاہ کریں گے، نہ خرید و فروخت، اور نہ انہیں پناہ دیں گے۔ زہری کہتے ہیں: خیف وادی کا نام ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وادی میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے اترے کہ جہاں پر کفر کا دور دورہ تھا، اب وہاں اسلام کا غلبہ ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Usamah bin Zaid (RA) said I asked Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) where will you encamp tomorrow? (This is asked on the occasion of his Hajj). He replied “Did ‘Aqil leave any house for us?” He again said “We shall encamp in the valley (Khaif) of Banu Kinanah where the Quraish took an oath upon disbelief, that is, Al Muhassab”. The oath was that Banu Kinanah concluded a pact with the Quraish against Banu Hashim “they would have no marital relationship with them, nor would give them accommodation nor would have any commercial ties with them”. Al Zuhri said Al Khaif means valley.