Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: On Going To Al-Madinah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2033.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”پالان نہ کسے (یعنی سفر نہ کئے) جائیں مگر تین مساجد کی طرف، یعنی مسجد الحرام (بیت اللہ) میری یہ مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد الاقصیٰ کی طرف۔“
تشریح:
مدینہ منورہ اس دنیا میں تمام مسلمانان عالم کا محبوب ترین شہر ہے۔ یہ ہمارے آقا ہمارے محبوب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا دارالحجرت اور مستقر ہے۔ تمام اہل السنہ والجماعۃ (اہلحدیث) اس مبارک شہر کی زیارت اور اس کے سفر کو اپنی آرزوں کی انتہا اور اپنے عظیم ترین اعمال صالحہ میں شمار کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث کی شرع میں علامہ خطابی کے کلمات بہت ہی جامع ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ارشاد نبویﷺ کا تعلق نذر سے ہے۔ یعنی اگر انسان نے کسی عام مسجد میں نماز پڑھنے کی نذر مانی ہوتو اسے اختیار ہے کہ چاہے تو اس نذر کردہ مسجد میں نماز پڑھے یا کسی اور میں پڑھ لے۔ (سبھی برابر ہیں۔) الا یہ کہ ان تین میں سے کسی کی نذر مانی ہو تو اسے یہ اپنی نذر پوری کرنی واجب ہے۔ اور ان کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں ہمارے انبیاء ؑ کی مساجد ہیں۔ جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ جبکہ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف ان تین مسجدوں میں صحیح ہے۔ انتھیٰ اس معنی کی تایئد اس روایت کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔ (لاينبغي للمطيِّ أن يَشدَّ رحالهَا إلی مسجدٍ تبتغي فيه الصلاةُ غير مسجدي هذا والمسجد الحرام والمسجد الاقصي)(نیل الأوطار: 110/5) یعنی بغرض نماز کسی مسجدکی طرف سواری پر پالان نہ کسا جائے۔ سوائے ان مساجد کے میری یہ مسجد مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔ شاہ عبدالعزیز کی توضیح یہ ہے کہ اس حدیث میں مستثنیٰ منہ مخذوف ہے یعنی لاتُشد الرحالُ إلی موضعٍ يُتقربُ به إلا إلی ثلاثةِ مساجدَ ان تين مساجد کے علاوہ بغرض تقرب کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔ الفاظ حدیث کا ظاہر سیاق واضح کر رہا ہے کہ ان تین محترم معظم مساجد کے علاوہ کہیں کا سفر نہ کیا جاوے۔ (یعنی بغرض عبادت وتقرب) اور اس کی تایئد حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے۔ کہ انہوں نے بصرہ الغفاری سے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ کہا کوہ طور سے کہا کہ اگر تمہارے اس سفر سے پہلے میری تم سے ملاقات ہوجاتی تو تم نہ جاتے میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا تھا۔ کہ (لاتعمل المطيُّ إلَّا إلی ثلاةِ مساجدَ)(سنن النسائي، الجمعة، حديث: ١٤٣١) تين مساجد كے علاوہ کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ البالغہ میں لکھا ہے۔ کہ اہل جاہلیت اپنے زعم کے مطابق کئی متبرک مقامات کا سفر کیا کرتے تھے۔ جس کا لازمی نتیجہ اللہ کے دین میں بصورت تحریف وفساد نکلتا تھا۔ تو نبی کریم ﷺنے اس فساد کا منبع ہی بند کر دیا۔ تاکہ مشروع اور غیر مشروع مشرکانہ وبدعی شعائر آپس میں خلط ملط نہ ہوں۔ اور غیر اللہ کی عبادت کا دروازہ بند ہوجائے۔ اور میرے نزدیک انہی میں سے کوئی قبر کسی ولی اللہ کی عبادت گاہ اور کوہ طور سبھی برابر ہیں۔ (بحوالہ عون المعبود) شعائر اور عبادت کے علاوہ جہاد ہجرت طلب علم۔ عزیز واقارب اور علماء سے ملاقات اور تجارت وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے لئے سفر شرعا مطلوب ہے۔ کسی نے بھی کبھی ان پر انکار نہیں کیا۔ مگر بغرض عبادت اعتکاف اور اجر مذید کی غرض سے کسی جگہ کا سفر بفرمان رسول ﷺ ان تین مساجد ہی سے خاص ہے۔ زیارت قبور کے لئے سفر کا مسئلہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریروں میں خوب خوب نکھارا ہے۔ اور نہایت قوی اور واضح براہین اور گہری بصیرت سے ثابت کیا ہے۔ کہ محض زیارت قبور کےلئے سفر کہیں کا بھی ہو جائز نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کی قبر کی بجائے وہ نیت کی جانی چاہیے جو مشروع ومرغوب فیہ ہو۔ یعنی زیارت مسجد نبوی اور اس میں نماز سفر کی یہ نیت اور غرض انتہائی مبارک مشروع اور مرغوب ہے۔ اور متضمن ہے۔ دیگر سب مشروع زیارات کو یعنی رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک مسجد قباء مقابر بقیع اور شہدائے احد۔ اور یہ نزاع اور اختلاف صرف ابتدائی نیت کے مسئلے میں ہے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر مذکورہ بالا سبھی زیارات حاصل ہوتی ہیں۔ اور سب کی زیار ت مستحب ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہذا علمائے اہل حدیث۔۔۔ كثر الله سوادهم۔۔۔ اس امر کے قائل وفاعل ہیں۔ کہ مدینہ منورہ میں اصلا مسجد نبوی کی زیارت کا قصد کیا جائے۔ اور بس۔ دیگر زیارات بالتبع حاصل ہوں گی۔ یہ عمل اور سفر پیارے پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت کا مظہر ہے۔ بشرط یہ کہ عقیدہ صحیح اور دیگر اطوار زندگی بھی شریعت کے مطابق ہوں۔ اس سے بے رغبتی انتہائی شقاوت بدبختی۔ اور رسول اللہ ﷺ سے محبت نہ ہونے کی دلیل ہے۔ ایک ضروری نکتہ یہ بھی ہے کہ زیارت مسجد نبوی کا اعمال حج سے قطعا ً کوئی تعلق نہیں ہے۔ اعمال حج اول تا آخر مکہ مکرمہ میں ہی مکمل ہوجاتے ہیں۔ سفر مدینہ ایک علیحدہ اور مستقل عمل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے سفر حج میں مدینہ منورہ نہ جاسکے تو اس کے حج میں کوئی نقص یا عیب نہیں ہوتا۔ (اللهم ارزقنا حبك وحب عمل يقربنا إلی حبك) اس باب كی مزکورہ بالا صحیح ترین حدیث کے مقابلے میں زیارت قبر نبوی کے سفر کے سلسلے میں پیش کی جانے والی روایات اصول حدیث کے معیار پر پوری نہیں اُترتی ہیں۔ اور دین محض جذبات یا تعصب کا نام نہیں بلکہ اتباع حق کا نام ہے۔ ان ضعیف روایات میں سے اہم روایات کی تخریج اور ان کے ضعف کی صراحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے (التلخیص الجبیر 266/2۔ حدیث: 1075) میں کردی ہے۔ مثلاً من زارَني بعدَ موتي فكأنَّما زارَني في حَياتي) جس نے میری موت کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی۔ (من زارَ قبرِي فلهُ الجنَّةُ) جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے۔ (من جاءني زائرًا لا تعمَلُه حاجةٌ إلَّا زيارَتِي كان حقًّا علي أن أكونَ له شفيعًا يومَ القيامةِ) جو میری زیارت کے لئے آیا جبکہ اسے سوائے میری زیارت کے اور کوئی غرض نہ ہو تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے روز اس کے لئے سفارشی بنوں (من حج ولم يزرني فقد جفاني) جس نے حج کیا اور میری زیارت نہیں کی اس نے بلاشبہ مجھ سے بے رخی کی (من زارَني بالمدينةِ محتسبًا كنتُ لهُ شفعًا و شهيدًا يومَ القيامةِ) جس نے ثواب کی غرض سے مدینے کی زیارت کی میں ا س کے لئے قیامت کے دن شفیع اور شہید بنوں گا یہ سب روایات ناقابل حجت ہیں۔ طلبہ علم اور متلاشیان حق پر واجب ہے۔ کہ سنت اور بدعت میں فرق کرنے کےلئے علماء اور راسخین فی الحدیث سے رجوع کریں۔ وباللہ التوفیق
الحکم التفصیلی:
قلت: أخرجه الشيخان. وصححه الترمذي وابن الجارود) .إسناده: حدثنا مسدد: ثنا سفيان عن الزهري عن سعيد بن المسيَّب عن أبي هريرة.
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين؛ غير مسدد، فهو على شرط البخاري وحده، وقد توبع.والحديث أخرجه أحمد (2/238) ، والحميدي (943) : ثنا سفيان... به.وأخرجه البخاري (4/49) ، ومسلم (4/126) ، وغيرهما من طرق أخرى عن سفيان... به.وكذلك رواه ابن الجارود (510) .وله طريقان آخران عن أبي هريرة.وشاهدان من حديث أبي سعيد الخدري، وابن عمرو بن العاص؛ وذلك كلهمخرج في الإرواء (970) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”پالان نہ کسے (یعنی سفر نہ کئے) جائیں مگر تین مساجد کی طرف، یعنی مسجد الحرام (بیت اللہ) میری یہ مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد الاقصیٰ کی طرف۔“
حدیث حاشیہ:
مدینہ منورہ اس دنیا میں تمام مسلمانان عالم کا محبوب ترین شہر ہے۔ یہ ہمارے آقا ہمارے محبوب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا دارالحجرت اور مستقر ہے۔ تمام اہل السنہ والجماعۃ (اہلحدیث) اس مبارک شہر کی زیارت اور اس کے سفر کو اپنی آرزوں کی انتہا اور اپنے عظیم ترین اعمال صالحہ میں شمار کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث کی شرع میں علامہ خطابی کے کلمات بہت ہی جامع ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ارشاد نبویﷺ کا تعلق نذر سے ہے۔ یعنی اگر انسان نے کسی عام مسجد میں نماز پڑھنے کی نذر مانی ہوتو اسے اختیار ہے کہ چاہے تو اس نذر کردہ مسجد میں نماز پڑھے یا کسی اور میں پڑھ لے۔ (سبھی برابر ہیں۔) الا یہ کہ ان تین میں سے کسی کی نذر مانی ہو تو اسے یہ اپنی نذر پوری کرنی واجب ہے۔ اور ان کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں ہمارے انبیاء ؑ کی مساجد ہیں۔ جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ جبکہ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف ان تین مسجدوں میں صحیح ہے۔ انتھیٰ اس معنی کی تایئد اس روایت کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔ (لاينبغي للمطيِّ أن يَشدَّ رحالهَا إلی مسجدٍ تبتغي فيه الصلاةُ غير مسجدي هذا والمسجد الحرام والمسجد الاقصي)(نیل الأوطار: 110/5) یعنی بغرض نماز کسی مسجدکی طرف سواری پر پالان نہ کسا جائے۔ سوائے ان مساجد کے میری یہ مسجد مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔ شاہ عبدالعزیز کی توضیح یہ ہے کہ اس حدیث میں مستثنیٰ منہ مخذوف ہے یعنی لاتُشد الرحالُ إلی موضعٍ يُتقربُ به إلا إلی ثلاثةِ مساجدَ ان تين مساجد کے علاوہ بغرض تقرب کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔ الفاظ حدیث کا ظاہر سیاق واضح کر رہا ہے کہ ان تین محترم معظم مساجد کے علاوہ کہیں کا سفر نہ کیا جاوے۔ (یعنی بغرض عبادت وتقرب) اور اس کی تایئد حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے۔ کہ انہوں نے بصرہ الغفاری سے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ کہا کوہ طور سے کہا کہ اگر تمہارے اس سفر سے پہلے میری تم سے ملاقات ہوجاتی تو تم نہ جاتے میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا تھا۔ کہ (لاتعمل المطيُّ إلَّا إلی ثلاةِ مساجدَ)(سنن النسائي، الجمعة، حديث: ١٤٣١) تين مساجد كے علاوہ کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ البالغہ میں لکھا ہے۔ کہ اہل جاہلیت اپنے زعم کے مطابق کئی متبرک مقامات کا سفر کیا کرتے تھے۔ جس کا لازمی نتیجہ اللہ کے دین میں بصورت تحریف وفساد نکلتا تھا۔ تو نبی کریم ﷺنے اس فساد کا منبع ہی بند کر دیا۔ تاکہ مشروع اور غیر مشروع مشرکانہ وبدعی شعائر آپس میں خلط ملط نہ ہوں۔ اور غیر اللہ کی عبادت کا دروازہ بند ہوجائے۔ اور میرے نزدیک انہی میں سے کوئی قبر کسی ولی اللہ کی عبادت گاہ اور کوہ طور سبھی برابر ہیں۔ (بحوالہ عون المعبود) شعائر اور عبادت کے علاوہ جہاد ہجرت طلب علم۔ عزیز واقارب اور علماء سے ملاقات اور تجارت وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے لئے سفر شرعا مطلوب ہے۔ کسی نے بھی کبھی ان پر انکار نہیں کیا۔ مگر بغرض عبادت اعتکاف اور اجر مذید کی غرض سے کسی جگہ کا سفر بفرمان رسول ﷺ ان تین مساجد ہی سے خاص ہے۔ زیارت قبور کے لئے سفر کا مسئلہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریروں میں خوب خوب نکھارا ہے۔ اور نہایت قوی اور واضح براہین اور گہری بصیرت سے ثابت کیا ہے۔ کہ محض زیارت قبور کےلئے سفر کہیں کا بھی ہو جائز نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کی قبر کی بجائے وہ نیت کی جانی چاہیے جو مشروع ومرغوب فیہ ہو۔ یعنی زیارت مسجد نبوی اور اس میں نماز سفر کی یہ نیت اور غرض انتہائی مبارک مشروع اور مرغوب ہے۔ اور متضمن ہے۔ دیگر سب مشروع زیارات کو یعنی رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک مسجد قباء مقابر بقیع اور شہدائے احد۔ اور یہ نزاع اور اختلاف صرف ابتدائی نیت کے مسئلے میں ہے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر مذکورہ بالا سبھی زیارات حاصل ہوتی ہیں۔ اور سب کی زیار ت مستحب ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہذا علمائے اہل حدیث۔۔۔ كثر الله سوادهم۔۔۔ اس امر کے قائل وفاعل ہیں۔ کہ مدینہ منورہ میں اصلا مسجد نبوی کی زیارت کا قصد کیا جائے۔ اور بس۔ دیگر زیارات بالتبع حاصل ہوں گی۔ یہ عمل اور سفر پیارے پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت کا مظہر ہے۔ بشرط یہ کہ عقیدہ صحیح اور دیگر اطوار زندگی بھی شریعت کے مطابق ہوں۔ اس سے بے رغبتی انتہائی شقاوت بدبختی۔ اور رسول اللہ ﷺ سے محبت نہ ہونے کی دلیل ہے۔ ایک ضروری نکتہ یہ بھی ہے کہ زیارت مسجد نبوی کا اعمال حج سے قطعا ً کوئی تعلق نہیں ہے۔ اعمال حج اول تا آخر مکہ مکرمہ میں ہی مکمل ہوجاتے ہیں۔ سفر مدینہ ایک علیحدہ اور مستقل عمل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے سفر حج میں مدینہ منورہ نہ جاسکے تو اس کے حج میں کوئی نقص یا عیب نہیں ہوتا۔ (اللهم ارزقنا حبك وحب عمل يقربنا إلی حبك) اس باب كی مزکورہ بالا صحیح ترین حدیث کے مقابلے میں زیارت قبر نبوی کے سفر کے سلسلے میں پیش کی جانے والی روایات اصول حدیث کے معیار پر پوری نہیں اُترتی ہیں۔ اور دین محض جذبات یا تعصب کا نام نہیں بلکہ اتباع حق کا نام ہے۔ ان ضعیف روایات میں سے اہم روایات کی تخریج اور ان کے ضعف کی صراحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے (التلخیص الجبیر 266/2۔ حدیث: 1075) میں کردی ہے۔ مثلاً من زارَني بعدَ موتي فكأنَّما زارَني في حَياتي) جس نے میری موت کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی۔ (من زارَ قبرِي فلهُ الجنَّةُ) جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے۔ (من جاءني زائرًا لا تعمَلُه حاجةٌ إلَّا زيارَتِي كان حقًّا علي أن أكونَ له شفيعًا يومَ القيامةِ) جو میری زیارت کے لئے آیا جبکہ اسے سوائے میری زیارت کے اور کوئی غرض نہ ہو تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے روز اس کے لئے سفارشی بنوں (من حج ولم يزرني فقد جفاني) جس نے حج کیا اور میری زیارت نہیں کی اس نے بلاشبہ مجھ سے بے رخی کی (من زارَني بالمدينةِ محتسبًا كنتُ لهُ شفعًا و شهيدًا يومَ القيامةِ) جس نے ثواب کی غرض سے مدینے کی زیارت کی میں ا س کے لئے قیامت کے دن شفیع اور شہید بنوں گا یہ سب روایات ناقابل حجت ہیں۔ طلبہ علم اور متلاشیان حق پر واجب ہے۔ کہ سنت اور بدعت میں فرق کرنے کےلئے علماء اور راسخین فی الحدیث سے رجوع کریں۔ وباللہ التوفیق
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”کجاوے صرف تین ہی مسجدوں کے لیے کسے جائیں: مسجد الحرام، میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصی کے لیے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying “Journey should not be made(to visit any masjid) except towards three masjids: The sacred masjid(of Makkah), this masjid of mine and Al Aqsa masjid(in Jerusalem).