Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: A Person Who Steps On Something Impure)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
204.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ہم گندگی پر سے چل کر آتے تھے اور وضو نہ کرتے تھے اور نہ (اثنائے نماز میں) اپنے بالوں یا کپڑوں کو سمیٹتے تھے۔ (اس حدیث کی سند میں) ابراہیم بن ابی معاویہ نے یوں کہا ہے «عن الأعمش عن شقيق عن مسروق عن عبد الله» (یعنی مسروق کے اضافہ کے ساتھ) نیز یہ بھی کہ یہ سند یا تو «عن الأعمش عن شقيق قال قال عبد الله» (بلفظ «عن») ہے یا «الأعمش حدث عن شقيق» (بلفظ تصریح تحدیث)۔
تشریح:
یہ روایت بھی شیخ البانیکےنزدیک صحیح ہے‘اس میں بیان کردہ باتیں دوسری احادیث سےبھی ثابت ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرطهما، وكذلك صححه الحاكم ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا هَناد بن السَرِي وإبراهيم بن أبي معاوية عن أبي معاوية. (ح) وثنا عثمان بن أبي شيبة: حدثني شريك وجرير وابن إدريس عن الأعمش عن شقيق قال: قال عبد الله. قال أبو داود: قال إبراهيم بن أبي معاوية فيه: عن الأعمش عن شقيق عن مسروق- أو حدثه عنه- قال: قال عبد الله. وقال هناد: عن شقيق- أو حدثه عنه-[قال: قال عبد الله ]. ومقصود المؤلف من ذلك بيان اختلاف وقع فيه على أبي معاوية: فابنه إبراهيم يرويه عنه عن الأعمش عن شقيق عن مسروق عن عبد الله؛ فأدخل بين شقيق وعبد الله: مسروقاً. وخالفه هناد؛ فأسقطه من بينهما موافقاً في ذلك ابن أبي شيبة. ثم اتفقا- أعني: إبراهيم وهناداً- في الشك في التحديث بدل العنعنة لكنهما اختلفا في محله: فإبراهيم جعله في رواية شقيق عن مسروق؛ أي: هل قال شقيق: حدثني مسروق، أم قال: عن مسروق؟! وهناد جعله في رواية الأعمش عن شقيق. هذا هو الظاهر مما ذكره المصنف رحمه الله؛ وقد فهم صاحب العون خلاف ما بينا من تعيين مكان الشك! وهو خطأً واضح لاحاجة لبيانه؛ فنكتفي بالإشارة إليه، فمن شاء التحقق؛ فليراجعه بنفسه، ثم ليقابله بما ذكرنا؛ يتبين له صو ب ما ذهبنا إليه. وقد تابع هناداً: محمد بن حماد: ثنا أبو معاوية عن الأعمش عن شقيق- أو حدثه عنه-. أخرجه البيهقي (1/139) من طريق الحاكم، وهو في المستدرك (1/139) والصواب رواية ابن أبي شيبة؛ لأنه لا اضطراب فيها، ولأن أبا معاوية قد وافقه عليها: في رواية أحمد بن مَنِيع وأحمد بن عبد الجبار كلاهما عن أبي معاوية عن الأعمش عن شقيق قال: قال عبد الله. أخرجه الحاكم (1/139 و 171) . وقد تابعه على الصواب: سفيان بن عيينة عن الأعمش... به. أخرجه الحاكم، وعنه البيهقي. فالحديث صحيح على شرط الشيخين؛ وكذلك صححه الحاكم، ووافقه الذهبي. والحديث أخرجه البيهقي من طريق المصنف. وأخرجه الحاكم من طريق موسى بن إسحاق الأنصاري: ثنا أبو بكر بن أبي شيبة: ثنا شريك وجرير عن الأعمش... به. ثم أخرجه، هو وابن ماجه (1/323) من طريقين آخربن عن عبد الله بن إدريس... به؛ ولفظ ابن ماجه: قال: أمرنا أن لا نكف شعراً ولا ثوباً، ولا نتوضأ من موطئ. ورواه الترمذي (1/267) تعليقاً؛ بلفظ: قال: كنا مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا نتوضأ من المَوْطَأ. قلت: وهذا لفظ ابن عيينة عند الحاكم والبيهقي. (تنبيه) : بعض أسانيد هذا الحديث عند الحاكم: من طريق عبد الله بن أحمد ابن حنبل، وليس الحديث في مسند أبيه ولا في زوائده عليه!
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ہم گندگی پر سے چل کر آتے تھے اور وضو نہ کرتے تھے اور نہ (اثنائے نماز میں) اپنے بالوں یا کپڑوں کو سمیٹتے تھے۔ (اس حدیث کی سند میں) ابراہیم بن ابی معاویہ نے یوں کہا ہے «عن الأعمش عن شقيق عن مسروق عن عبد الله» (یعنی مسروق کے اضافہ کے ساتھ) نیز یہ بھی کہ یہ سند یا تو «عن الأعمش عن شقيق قال قال عبد الله»(بلفظ «عن») ہے یا «الأعمش حدث عن شقيق» (بلفظ تصریح تحدیث)۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت بھی شیخ البانیکےنزدیک صحیح ہے‘اس میں بیان کردہ باتیں دوسری احادیث سےبھی ثابت ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
انسان اگر گندگی اور نجاست پر سے گزرے اور بعد میں خشک زمین پر چلے اس طرح کہ سب کچھ اتر جائے، تو جسم اور کپڑا پاک ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کا جرم ( وجود ) باقی رہے تو دھونا ضروری ہو گا۔ چمڑے کے موزے اور جوتے کو زمین پر رگڑنا ہی کافی ہوتا ہے۔ اثنائے نماز میں بالوں اور کپڑوں کو ان کی ہیئت سے سمیٹنا جائز نہیں۔ سر یا کندھے کے کپڑے کا لٹکانا ( سدل کرنا ) جائز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Mas'ud (RA): We would not wash our feet after treading on something unclean, nor would we hold our hair and garments (during prayer).