Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Visiting Graves)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2043.
ربیعہ بن ہدیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا طلحہ بن عبیداللہ ؓ کو کبھی حدیث رسول بیان کرتے نہیں سنا۔ مگر ایک حدیث۔ شاگرد نے کہا: میں نے پوچھا وہ کون سی؟ (طلحہ نے) کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہم شہداء کی قبروں کا قصد کیے ہوئے تھے حتیٰ کہ ہم حرہ واقم پر چڑھ گئے۔ جب اس سے نیچے اترے تو وہاں ایک جانب میں قبریں تھیں۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے بھائیوں کی قبریں یہی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ہمارے اصحاب کی قبریں ہیں۔“ پھر جب ہم شہداء کی قبروں پر پہنچ گئے تو فرمایا: ”یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں۔“
تشریح:
رسول اللہ ﷺ موقع بموقع شہداء کی قبروں پر جایا کرتے تھے اور ان کے لئے دعایئں فرماتے تھے آپ نے شہداء کو اپنے بھائی ہونے کے لقب سے مشرف فرمایا اور دوسروں کو اپنے اصحاب کہا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح) .إسناده: حدثنا حامد بن يحيى: ثنا محمد بن مَعْنِ المَدَنِي: أخبرني داود بن خالد عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن عن ربيعة- يعني: ابَن الهُديرِ-.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات.وربيعة: ابن الهدير- ويقال: ربيعة بن عبد الله بن الهدير-.والحديث أخرجه البيهقي (5/249) من طريق أخرى عن حامد بن يحيى... به.وأخرجه هو، وأحمد (1/161) من طريق علي بن عبد الله: ثنا محمد بن معن الغِفاري... به.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
ربیعہ بن ہدیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا طلحہ بن عبیداللہ ؓ کو کبھی حدیث رسول بیان کرتے نہیں سنا۔ مگر ایک حدیث۔ شاگرد نے کہا: میں نے پوچھا وہ کون سی؟ (طلحہ نے) کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہم شہداء کی قبروں کا قصد کیے ہوئے تھے حتیٰ کہ ہم حرہ واقم پر چڑھ گئے۔ جب اس سے نیچے اترے تو وہاں ایک جانب میں قبریں تھیں۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے بھائیوں کی قبریں یہی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ہمارے اصحاب کی قبریں ہیں۔“ پھر جب ہم شہداء کی قبروں پر پہنچ گئے تو فرمایا: ”یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ موقع بموقع شہداء کی قبروں پر جایا کرتے تھے اور ان کے لئے دعایئں فرماتے تھے آپ نے شہداء کو اپنے بھائی ہونے کے لقب سے مشرف فرمایا اور دوسروں کو اپنے اصحاب کہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ربیعہ بن ہدیر کہتے ہیں کہ میں نے طلحہ بن عبیداللہ ؓ کو سوائے اس ایک حدیث کے کوئی اور حدیث رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے نہیں سنا، میں نے عرض کیا: وہ کون سی حدیث ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، آپ شہداء کی قبروں کا ارادہ رکھتے تھے جب ہم حرۂ واقم (ایک ٹیلے کا نام ہے) پر چڑھے اور اس پر سے اترے تو دیکھا کہ وادی کے موڑ پر کئی قبریں ہیں، ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہمارے بھائیوں کی قبریں یہی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہمارے صحابہ کی قبریں ہیں۱؎۔“ جب ہم شہداء کی قبروں کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں۲؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : جن کی موت اسلام پر ہوئی ہے اور وہ شہداء کا مقام نہیں پا سکے ہیں۔ ۲؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت کی نسبت ان کی طرف کی یہ ان کے لئے بڑے شرف کی بات ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rabi'ah ibn al-Hudayr: Rabi'ah ibn al-Hudayr said: I did not hear Talhah ibn Ubaydullah narrating any tradition from the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) except one tradition. I (Rabi'ah ibn Abu Abdur Rahman) asked: What is that? He said: We went out along with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) who was going to visit the graves of the martyrs. When we ascended Harrah Waqim, and then descended from it, we found there some graves at the turning of the valley. We asked: Messenger of Allah, are these the graves of our brethren? He replied: Graves of our companions. When we came to the graves of martyrs, he said: These are the graves of our brethren.