Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding Tahlil (Intentionally Marrying A Divorcee To Make Her Permissible For Her First Husband))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2077.
حارث اعور، نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت کرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ علی ؓ ہیں، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت کیا۔
تشریح:
حارث بن عبداللہ الاعور الہمدانی الکونی ایک کذاب راوی ہے، تاہم یہ روایت دیگر احادیث صحیحہ کی روشنی میں صحیح ہے، شیخ البانی ؒ نے بھی ان دونوں حدیثوں کو صحیح کہا ہے۔ فائدہ: کوئی عورت جسے مختلف اوقات میں تین طلاقیں ہو چکی ہوں اور اس کے شوہر کا حق رجوع ختم ہو گیا ہو تو کوئی شخص اس کے ساتھ اس نیت سے نکاح کرے اور مباشرت بھی کہ وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے، یہ قطعا حرام اور ناجائز ہے۔ یہ حلالہ کہلاتا ہے اس نکاح سے عورت پہلے شوہر کے لئے حلال نہ ہو گی۔ مستدرک حاکم اور طبرانی اوسط میں جناب نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عمر رضی اللہ کی خدمت میں آیا اور پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں تو اس کے بھائی نے بغیر کسی مشورے کے اس عور ت سے نکاح کر لیا تاکہ اسے بھائی کے لئے حلال کردے۔ تو کیا وہ اس طرح سے پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، الا یہ کہ باقاعدہ رغبت سے نکاح کیا گیا ہو اس انداز کے نکاح کو ہم رسول ﷺکے دور میں سفاح (زنا) شمار کرتے تھے۔ (عون المعبود) یہ عمل انتہائی خست اور بےغیرتی کا عمل ہے، ایک دوسری روایت میں ایسے شخص کو مانگے کا سانڈ کہا گیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وقد قوّاه من سبق ذكرهم آنفاً) . إسناده: حدثنا وهب بن بقية عن خالد عن حصَيْنٍ عن عامر عن الحارث الأعور عن رجل من أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير الحارث الأعور، لكنه قد توبع، كما ذكرت في الذي قبله.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
حارث اعور، نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت کرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ علی ؓ ہیں، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
حارث بن عبداللہ الاعور الہمدانی الکونی ایک کذاب راوی ہے، تاہم یہ روایت دیگر احادیث صحیحہ کی روشنی میں صحیح ہے، شیخ البانی ؒ نے بھی ان دونوں حدیثوں کو صحیح کہا ہے۔ فائدہ: کوئی عورت جسے مختلف اوقات میں تین طلاقیں ہو چکی ہوں اور اس کے شوہر کا حق رجوع ختم ہو گیا ہو تو کوئی شخص اس کے ساتھ اس نیت سے نکاح کرے اور مباشرت بھی کہ وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے، یہ قطعا حرام اور ناجائز ہے۔ یہ حلالہ کہلاتا ہے اس نکاح سے عورت پہلے شوہر کے لئے حلال نہ ہو گی۔ مستدرک حاکم اور طبرانی اوسط میں جناب نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عمر رضی اللہ کی خدمت میں آیا اور پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں تو اس کے بھائی نے بغیر کسی مشورے کے اس عور ت سے نکاح کر لیا تاکہ اسے بھائی کے لئے حلال کردے۔ تو کیا وہ اس طرح سے پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، الا یہ کہ باقاعدہ رغبت سے نکاح کیا گیا ہو اس انداز کے نکاح کو ہم رسول ﷺکے دور میں سفاح (زنا) شمار کرتے تھے۔ (عون المعبود) یہ عمل انتہائی خست اور بےغیرتی کا عمل ہے، ایک دوسری روایت میں ایسے شخص کو مانگے کا سانڈ کہا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حارث الاعور ؓ ایک صحابی رسول سے روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ وہ علی ؓ ہیں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے آگے راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The aforesaid tradition has also been transmitted by ‘Ali through a different chain of narrators from the Prophet (ﷺ) to the same effect.