Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: On Pre-Seminal Fluid (Madhi))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
209.
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے مقداد ؓ سے کہا اور مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی بیان کیا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں: اس کو مفضل بن فضالہ، ثوری اور ابن عیینہ نے «هشام عن أبيه عن علي» کی سند سے روایت کیا ہے۔ اور ابن اسحٰق نے «عن هشام عن أبيه عن علي بن أبي طالب ورواه ابن إسحاق عن هشام بن عروة عن أبيه عن المقداد عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے اور اس میں خصیتین کے دھونے کا ذکر نہیں کیا۔
تشریح:
1۔ حدیث 208 اور209 ضعیف ہیں۔ اس لیےخصیتین کا دھونا ضروری نہیں۔ صرف ذکر کا دھو لینا کافی ہے۔ تاہم بشرط صحت (جیسا کہ شیخ البانی کےنزدیک صحیح ہیں) ذکر کے ساتھ خصیتین کا بھی دھونا ضروری ہوگا۔ 2۔ منی جب زورسےاور اچھل کے نکلے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ مگر مذی‘ ودی اورجریان منی سے صرف وضولازم آتا ہے۔ 3۔ وضوکا اطلاق دو معانی پر ہوتا ہے۔ ایک صرف لغوی اعتبارسے یعنی منہ ہاتھ دھو لینا۔ دوسرا اصطلاحی وضویعنی جو وضو، نماز کے لیے کیا جاتا ہے، مذکوربالاحدیث میں اسی اصطلاحی وضو کا ذکر ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناد صحيح) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي قال: ثنا أبي عن هشام بن عروة. وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير مسلمة القعنبي- واسم أبيه قعنب-؛ قال المصنف في رواية الأجري: كان له شأن وقدر . وذكره ابن حبان في الثقات ، وقال: مستقيم الحديث . قلت: وقد تابعه زهير ويحيى بن سعيد ووكيع؛ كما سبق. ثم قال المصنف عقب الحديث: قال أبو داود: رواه المُفَضل بن فَضَالة والثوري وابن عيينة عن هشام عن أبيه عن علي . قلت: لم أقف على رواية هؤلاء! والظاهر أنها مثل رواية زهير ومن معه ممن ذكرنا فيما سلف. إلا أن صاحب عون العبود فهم منه أن المصنف يعني بذكره لهذه الرواية: أنها تدل على أن السائل هو علي! قلت: وهذا محتمل، ولكنها لا تنفي ما استظهرناه؛ لأن الروايات السابقة يصح أن يقال فيها أيضا: إنها عن علي رضي الله عنه؛ ولكنها عنه أنه أرسل المقداد... فيحتمل أن تكون هذه مثلها. ويؤيده قول الصنف عقيها: ورواه ابن إسحاق عن هشام بن عروة عن أبيه عن المقداد عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... لم يدْكر: أنثييه .. فإنها لا تنفي أيضا أن يكون علي قد أرسل المقداد؛ بل هذا مما ثبت في هذه الرواية نفسها؛ قد وصلها أحمد (4/79 و 6/2) فقال: حدثنا يزيد بن هارون: أنا محمد بن إسحاق... به؛ بلفظ: قال: قال لي علي: سل رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن الرجل يلاعب أهله؛ فيخرج منه المذي من غير ماء الحياة؛ فلولا أن ابنته تحتي لساكته! فقلت: يا رسول الله! الرجل يلاعب أهله... إلخ. وأما عدم ذكر ابن إسحاق: أنثييه ؛ فليس ذلك بعلة، بعد أن اتفق جماعة من الثقات الحفاظ على إثباتها في الحديث عن هشام بن عروة، كما أنها وردت من الطريق الأولى عن علي (رقم 201) في بعض الروايات كما بينا هناك. وقد وجدت له طريقين آخرين: أخرج أحدهما: أبو عوانة (1/273) من طريق عَبِيدة السلماني عن علي بن أبي طالب قال: كنت رجلاً مَذَّاءً... الحديث وفيه: فقال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يغسل أنثييه وذكره، ويتوضأ وضوءه للصلاة . وإسناده صحيح. وأما الطريق الأخرى؛ فستذكر عند الكلام على الحديث (رقم 206) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے مقداد ؓ سے کہا اور مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی بیان کیا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں: اس کو مفضل بن فضالہ، ثوری اور ابن عیینہ نے «هشام عن أبيه عن علي» کی سند سے روایت کیا ہے۔ اور ابن اسحٰق نے «عن هشام عن أبيه عن علي بن أبي طالب ورواه ابن إسحاق عن هشام بن عروة عن أبيه عن المقداد عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے اور اس میں خصیتین کے دھونے کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حدیث 208 اور209 ضعیف ہیں۔ اس لیےخصیتین کا دھونا ضروری نہیں۔ صرف ذکر کا دھو لینا کافی ہے۔ تاہم بشرط صحت (جیسا کہ شیخ البانی کےنزدیک صحیح ہیں) ذکر کے ساتھ خصیتین کا بھی دھونا ضروری ہوگا۔ 2۔ منی جب زورسےاور اچھل کے نکلے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ مگر مذی‘ ودی اورجریان منی سے صرف وضولازم آتا ہے۔ 3۔ وضوکا اطلاق دو معانی پر ہوتا ہے۔ ایک صرف لغوی اعتبارسے یعنی منہ ہاتھ دھو لینا۔ دوسرا اصطلاحی وضویعنی جو وضو، نماز کے لیے کیا جاتا ہے، مذکوربالاحدیث میں اسی اصطلاحی وضو کا ذکر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے مقداد ؓ سے کہا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسے مفضل بن فضالہ، ایک جماعت، ثوری اور ابن عیینہ نے ہشام سے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے علی بن ابی طالب سے روایت کیا ہے، نیز اسے ابن اسحاق نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے مقداد ؓ سے اور مقداد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، مگر اس میں لفظ «أنثييه» ”دونوں فوطوں کا“ ذکر نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Urwah reported on the Authority of his father a tradition from ‘Ali (RA) b. Abi Talib who said: I Asked al-Miqdad (to consult the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)). He then narrated the tradition bearing the same meaning. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said; this tradition has been reported with another chain of narrators. This version does not mention the word “testicles”.