باب: اگر باپ کنواری لڑکی کا ، اس سے مشورہ کیے بغیر نکاح کر دے تو؟
)
Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding A Virgin Who Was Married Off By Her Father Without He Consent)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2097.
عکرمہ نبی کریم ﷺ سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا کہ (عکرمہ نے) ابن عباس ؓ کا نام ذکر نہیں کیا، اور محدثین کے ہاں اس روایت کو اسی طرح مرسل روایت کرنا ہی معروف ہے۔
تشریح:
باپ کو روا نہیں کہ جوان بیٹی کا عندیہ لیے بغیر اس کا نکاح کر دے، جبر کی صورت میں اسے حق حاصل ہے کہ قاضی کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر دے اور قاضی تحقیق احوال کے بعد شرعی تقاضوں کے مطابق فیصلہ دے۔ اگر باپ ولی کا فیصلہ بے محل ہو تو قاضی ایسے نکاح کو فسخ کر سکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين، لولا أن جرير بن حازم قد خالف حماد بن زيد- كما رأيت في رواية المصنف- وغيره كما ذكر، فقالوا: عن عكرمة... مرسلاً، لم يذكروا فيه ابن عباس. وهو الراجح. لكن للحديث طرق أخرى وشواهد، يقوي بعضها بعضاً، كما قال الحافظ في الفتح (9/161) . وقال الزيلعي- بعد أن ساق بعض طرقه في نصب الراية (3/190) -: قال ابن القطان في كتابه : حديث ابن عباس هذا حديث صحيح، وليست هذه خنساء بنت خِذَام التي زوجها أبوها وهي ثيب فكرهته، فرد عليه السلام نكاحه. رواه البخاري؛ فإن تلك ثيب وهذه بكر، وهما اثنتان، والدليل على أنهما ثنتان: ما أخرجه الدارقطني عن ابن عباس: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَد نكاح بكر وثيب أنكحهما أبوهما وهما كارهتان. انتهى .
قلت: هذا أخرجه الدارقطني (ص 387) ؛ وأعلَّه بالإرسال؛ فراجعه.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
عکرمہ نبی کریم ﷺ سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا کہ (عکرمہ نے) ابن عباس ؓ کا نام ذکر نہیں کیا، اور محدثین کے ہاں اس روایت کو اسی طرح مرسل روایت کرنا ہی معروف ہے۔
حدیث حاشیہ:
باپ کو روا نہیں کہ جوان بیٹی کا عندیہ لیے بغیر اس کا نکاح کر دے، جبر کی صورت میں اسے حق حاصل ہے کہ قاضی کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر دے اور قاضی تحقیق احوال کے بعد شرعی تقاضوں کے مطابق فیصلہ دے۔ اگر باپ ولی کا فیصلہ بے محل ہو تو قاضی ایسے نکاح کو فسخ کر سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے عکرمہ سے یہ حدیث مرسلاً مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں: اس روایت میں ابن عباس ؓ کا ذکر نہیں ہے، اس روایت کا اسی طرح لوگوں کا مرسلاً روایت کرنا ہی معروف ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The above tradition has been transmitted by ‘Ikrimah (RA) from the Prophet (ﷺ). Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said “He (Muhammad bin ‘Ubaid) did not mention the name of Ibn ‘Abbas (RA) in the chain of this tradition. The people have also narrated it mursal (without the mention of the name of Ibn ‘Abbas) in a similar way. Its transmission in the mursal form is well known.