Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Avoiding (The Splatter) Of Urine)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
21.
جناب عثمان بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ ہمیں جریر نے منصور کے واسطے سےمجاہد سے بیان کیا ہے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً اس کے ہم معنی روایت بیان کی ہے۔ جریر نے کہا «كَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ» اور ابومعاویہ (محمد بن خازم) کے لفظ ہیں «كَانَ لَا يَسْتَنْزِهُ مِنْ بَوْلِهِ»
تشریح:
فائدہ:[لا يَسْتَتِرُ] کا ظاہر معنی ہے کہ ’’پردہ نہ کرتا تھا‘‘ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ’’وہ اپنے اور پیشاب کے درمیان کوئی چیز حائل نہ کرتا تھا تاکہ وہ اس کے جسم اور کپڑوں کو نہ لگے۔‘‘ اس طرح دونوں لفظ معنوی طور پر ایک ہی مفہوم کے حامل ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وأبو عوانة في صحاحهم ، وصححه الترمذي) .
إسناده: ثنا زهير بن حرب، وهَناد بن السَّري قالا: ثنا وكيع: ثنا الأعمش قال: سمعت مجاهداً يحدث عن طاوس عن ابن عباس. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه. ثمّ قال أبو داود: قال هناد: يستتر مكان: يستنزه . حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا جرير عن منصور عن مجاهد عن ابن عباس عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بمعناه
قال: ... كان لا يستتر من بوله . وقال أبو معاوية: يستنزه ... . والحديث أخرجه النسائي: أخبرنا هنّاد بن السري عن وكيع... به؛ إلا أنه قال: يستنزه مثل رواية زهير.وأخرجه الشيخان وأبو عوانة وبقية الأربعة والبيهقي من طرق كثيرة عن وكيع... به. بعضهم قال: يستنزه ، والبعض: يستتر ، إلا رواية البيهقي فبلفظ: يتوقى ؛ وكذلك هي في المستخرج على الصحيح لأبي نعيم. قال الحافظ: وهي مفسرة للمراد . وتابعه عبد الواحد بن زياد عن الأعمش... به باللفط الأول: أخرجه مسلم والدارمي. ومحمد بن خازم... باللفظ الثاني: عند البخاري.
وقد خالف الأعمش: منصور؛ فرواه عن مجاهد عن ابن عباس... بإسقاط طاوس من بينهما. وكذلك رواه البخاري من طريق جرير كما رواه الصنف. وإيرادهما على الوجهين- دون أي ترجيح- دليل على صحتهما عندهما. ويؤيد ذلك: أن الطيأً لسي رواه (رقم 2646) عن شعبة عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس... مثل رواية جرير عن منصور.
وشعبة ثقة حجة؛ فروايته تؤيد أن الأعمش رواه على الوجهين معاً؛ كما قال بعض المحققين المتأخرين.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب عثمان بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ ہمیں جریر نے منصور کے واسطے سےمجاہد سے بیان کیا ہے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً اس کے ہم معنی روایت بیان کی ہے۔ جریر نے کہا «كَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ» اور ابومعاویہ (محمد بن خازم) کے لفظ ہیں «كَانَ لَا يَسْتَنْزِهُ مِنْ بَوْلِهِ»
حدیث حاشیہ:
فائدہ:[لا يَسْتَتِرُ] کا ظاہر معنی ہے کہ ’’پردہ نہ کرتا تھا‘‘ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ’’وہ اپنے اور پیشاب کے درمیان کوئی چیز حائل نہ کرتا تھا تاکہ وہ اس کے جسم اور کپڑوں کو نہ لگے۔‘‘ اس طرح دونوں لفظ معنوی طور پر ایک ہی مفہوم کے حامل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں جریر نے «كَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ» کہا ہے ، اور ابومعاویہ نے «يَسْتَتِرُ» کی جگہ «يَسْتَنْزِهُ» ’’وہ پاکی حاصل نہیں کرتا تھا‘‘ کا لفظ ذکر کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): A tradition from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) conveying similar meaning. The version of Jarir has the wording: "he did not cover himself while urinating". The version of Abu Mu'awiyah has the wording: "he did not safeguard himself (from urine)".