Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Marrying Someone That Is Not Yet Born)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2104.
ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا کہ اس کی خالہ نے ایک خاتون سے خبر سنائی جو کمال کی سچی عورت تھی، وہ بیان کرتی تھی کہ دور جاہلیت میں میرے والد ایک جنگ میں گئے۔ ان لوگوں کو گرمی لگنے لگی تو ایک شخص نے کہا: کون ہے جو مجھے اپنے جوتے دیدے، میں اس کا اپنی پہلی پیدا ہونے والی بیٹی سے نکاح کر دوں گا۔ چنانچہ میرے باپ نے اپنے جوتے اتار کر اس کی طرف پھینک دیے۔ پھر اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی، اور بالغ ہو گئی۔ اور گزشتہ قصہ کی مانند بیان کیا مگر سفیدی ظاہر ہونے کا ذکر نہیں کیا۔
تشریح:
یہ دونوں روایات ضعیف ہیں اس لئے ان سے کسی مسئلے کے اثبات میں دلیل نہیں لی جا سکتی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لجهالة خالة إبراهيم بن ميسرة، ومن المحتمل أن تكون هي سارة التي في الرواية الأولى) . إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا ابن جريج: أخبرني إبراهيم بن ميسرة ...
قلت: وهذا سند ضعيف؛ خالة إبراهيم قال الحافظ: لم أقف على اسمها . والحديث أخرجه البيهقي (7/145) من طريق المصنف. وأخرجه عبد الرزاق في مصنفه (10418) بإسناده ومتنه، وساقه بتمامه.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا کہ اس کی خالہ نے ایک خاتون سے خبر سنائی جو کمال کی سچی عورت تھی، وہ بیان کرتی تھی کہ دور جاہلیت میں میرے والد ایک جنگ میں گئے۔ ان لوگوں کو گرمی لگنے لگی تو ایک شخص نے کہا: کون ہے جو مجھے اپنے جوتے دیدے، میں اس کا اپنی پہلی پیدا ہونے والی بیٹی سے نکاح کر دوں گا۔ چنانچہ میرے باپ نے اپنے جوتے اتار کر اس کی طرف پھینک دیے۔ پھر اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی، اور بالغ ہو گئی۔ اور گزشتہ قصہ کی مانند بیان کیا مگر سفیدی ظاہر ہونے کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
یہ دونوں روایات ضعیف ہیں اس لئے ان سے کسی مسئلے کے اثبات میں دلیل نہیں لی جا سکتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابراہیم بن میسرہ کی روایت ہے کہ ایک عورت جو نہایت سچی تھی، کہتی ہے: میرے والد زمانہ جاہلیت میں ایک غزوہ میں تھے کہ (تپتی زمین سے) لوگوں کے پیر جلنے لگے، ایک شخص بولا: کوئی ہے جو مجھے اپنی جوتیاں دیدے؟ اس کے عوض میں پہلی لڑکی جو میرے یہاں ہو گی اس سے اس کا نکاح کر دوں گا، میرے والد نے جوتیاں نکالیں اور اس کے سامنے ڈال دیں، اس کے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی اور پھر وہ بالغ ہو گئی، پھر اسی جیسا قصہ بیان کیا لیکن اس میں «قتیر» کا واقعہ مذکور نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibrahim bin Maisarah reported from his maternal aunt who reported on the authority of a woman called Mussaddaqah (a truthful woman). She said: “In pre Islamic days, when my father participated in a battle the feet of the people burnt due to intense heat. Thereupon a man said “Who gives me his shoes, I shall marry him to my first daughter born to me. My father took off his shoes and there them before him. A girl was thereafter born to him and came of age”. The narrator then mentioned a similar story. But he did not mention that she had grown old.