Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding The Dowry)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2107.
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ ؓ (اپنے متعلق) بیان کرتی ہیں کہ یہ پہلے عبیداللہ بن حجش کی زوجیت میں تھیں اور وہ حبشہ جا کر فوت ہو گیا تو نجاشی نے ان سے شادی نبی کریم ﷺ کے ساتھ کر دی اور اپنی طرف سے ان کو چار ہزار (درہم) مہر ادا کیا۔ پھر انہیں شرجیل بن حسنہ ؓ کی معیت میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ امام ابوداؤد ؓ وضاحت فرماتے ہیں کہ شرجیل بن حسنہ میں ”حسنہ“ ان کی والدہ کا نام ہے۔
تشریح:
1: غنی اور صاحب وسعت آدمی کی حیثیت کے مطابق زیادہ مہر دے تو اچھی بات کہے کوئی ناجائز نہیں۔ تاہم محض دکھاوے کی نیت سے زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کر لینا اور پھر اسے ادا نہ کرنا، یکسر غلط ہے اسی طرح وسعت ہونے کے باوجود برائے نام مہر مقرر کرنا بھی غلط ہے، حق مہر کم یا زیادہ، طاقت کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ 2: علاوہ ازیں اس سلسلے میں کوئی دوسرا کفیل بن جائے تو درست تو درست ہے، کوئی حرج نہیں بلکہ نیکی میں تعاون ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وكذا قال الحاكم، ووافقه الذهبي، وصححه ابن الجارود) . إسناده: حدثنا حجاج بن أبي يعقوب الثقفي: ثنا مُعَلَّى بن منصور: ثنا ابن المبارك: ثنا معمر عن الزهري عن عروة عن أم حبيبة.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير الحجاج، فهو على شرط مسلم وحده، وقد توبع كما يأتي. والحديث أخرجه الحاكم (2/181) من طريق محمد بن شاذان الجوهري: ثنا معلى بن منصور... به. وقال: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي!
قلت: وهو من أوهامهما؛ فإن ابن شاذان هذا لم يخرج له الشيخان، بل ولا أحد من بقية الستة؛ فقد ذكره الحافظ تمييزاً، وهو ثقة. لكن أخرجه النسائي (2/88) ، وابن الجارود (713) ، والبيهقي (7/232) ، وأحمد (6/427) من طرق أخرى عن عبد الله بن المبارك... به.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ ؓ (اپنے متعلق) بیان کرتی ہیں کہ یہ پہلے عبیداللہ بن حجش کی زوجیت میں تھیں اور وہ حبشہ جا کر فوت ہو گیا تو نجاشی نے ان سے شادی نبی کریم ﷺ کے ساتھ کر دی اور اپنی طرف سے ان کو چار ہزار (درہم) مہر ادا کیا۔ پھر انہیں شرجیل بن حسنہ ؓ کی معیت میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ امام ابوداؤد ؓ وضاحت فرماتے ہیں کہ شرجیل بن حسنہ میں ”حسنہ“ ان کی والدہ کا نام ہے۔
حدیث حاشیہ:
1: غنی اور صاحب وسعت آدمی کی حیثیت کے مطابق زیادہ مہر دے تو اچھی بات کہے کوئی ناجائز نہیں۔ تاہم محض دکھاوے کی نیت سے زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کر لینا اور پھر اسے ادا نہ کرنا، یکسر غلط ہے اسی طرح وسعت ہونے کے باوجود برائے نام مہر مقرر کرنا بھی غلط ہے، حق مہر کم یا زیادہ، طاقت کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ 2: علاوہ ازیں اس سلسلے میں کوئی دوسرا کفیل بن جائے تو درست تو درست ہے، کوئی حرج نہیں بلکہ نیکی میں تعاون ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ عبیداللہ بن حجش کے نکاح میں تھیں، حبشہ میں ان کا انتقال ہو گیا تو نجاشی (شاہ حبشہ) نے ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کر دیا، اور آپ کی جانب سے انہیں چار ہزار (درہم) مہر دے کر شرحبیل بن حسنہ ؓ کے ہمراہ انہیں آپ ﷺ کے پاس روانہ کر دیا۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حسنہ شرحبیل کی والدہ۲؎ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سب سے زیادہ انہیں کا مہر تھا، باقی ازاواج مطہرات اور صاحبزادیوں کا مہر حد سے حد پانچ سو درہم تک تھا، جیسا کہ حدیث نمبر (۲۱۰۵) میں گزرا۔ ۲؎ : یہ والد کے بجائے اپنی والدہ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Umm Habibah (RA): 'Urwah reported on the authority of Umm Habibah that she was married to Abdullah ibn Jahsh who died in Abyssinia, so the Negus married her to the Prophet (ﷺ) giving her on his behalf a dower of four thousand (dirhams). He sent her to the Apostle of Allah (ﷺ) with Shurahbil ibn Hasanah. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Hasanah is his mother.