باب: جنگ میں قید ہونے والی عورتوں سے مباشرت کا مسئلہ
)
Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding Intercourse With Captives)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2156.
سیدنا ابو الدرداء ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک غزوے میں ایک عورت دیکھی جس کا حمل تقریباً پورے دنوں کا تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”شاید اس کے مالک نے اس سے مباشرت کی ہے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے ارادہ کیا ہے کہ اسے لعنت کروں ایسی لعنت جو اس کی قبر تک اس کے ساتھ جائے۔ یہ اس بچے کو کس طرح اپنا وارث بنا سکے گا جبکہ اس کے لیے یہ حلال نہیں (کہ غیر کے نطفے اور غیر کے بچے کو اپنا بچہ بنائے) اور کیونکر اس سے (غلاموں کی طرح) خدمت لے سکے گا جبکہ یہ اس کے لیے حلال نہیں۔“ (اگر بالفرض اس کا اپنا نطفہ ہوا اور اپنے بیٹے کے نسب کا انکار کیا تو یہ حرام ہے۔ اور پھر بیٹے کو غلام اور خادم کے درجے پر اتارنا کیونکر جائز ہے)۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه مسلم) . إسناده: حدثنا النفيلي: ثنا مسكين: ثنا شعبة عن يزيد بن خُمَيْرٍ عن عبد الرحمن بن جُبَيْرِ بن نفَيْرٍ عن أبيه عن أبي الدرداء.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال البخاري؛ غير يزيد بن خمير، فهو من رجال مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي. ومسكين: هو ابن بُكَيْرٍ الحَرَّاني. والنفيلي: اسمه عبد الله بن محمد بن علي بن نفَيْلٍ الحَراني. والحديث أخرجه مسلم (4/161) ، والدارمي (2/227) ، والبيهقي (7/449) ، وأحمد (5/195 و 6/446) ، وابن أبي شيبة (4/371) من طرق أخرى عن شعبة... به. وله شاهد عن سليمان بن حبيب المحاربي... مرسلاً. رواه عبد الرزاق (12910) بسند صحيح عنه.
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
سیدنا ابو الدرداء ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک غزوے میں ایک عورت دیکھی جس کا حمل تقریباً پورے دنوں کا تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”شاید اس کے مالک نے اس سے مباشرت کی ہے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے ارادہ کیا ہے کہ اسے لعنت کروں ایسی لعنت جو اس کی قبر تک اس کے ساتھ جائے۔ یہ اس بچے کو کس طرح اپنا وارث بنا سکے گا جبکہ اس کے لیے یہ حلال نہیں (کہ غیر کے نطفے اور غیر کے بچے کو اپنا بچہ بنائے) اور کیونکر اس سے (غلاموں کی طرح) خدمت لے سکے گا جبکہ یہ اس کے لیے حلال نہیں۔“ (اگر بالفرض اس کا اپنا نطفہ ہوا اور اپنے بیٹے کے نسب کا انکار کیا تو یہ حرام ہے۔ اور پھر بیٹے کو غلام اور خادم کے درجے پر اتارنا کیونکر جائز ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ میں تھے کہ آپ کی نظر ایک حاملہ عورت پر پڑی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے مالک نے شاید اس سے جماع کیا ہے۔“ لوگوں نے کہا: ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے ارادہ کیا کہ میں اس پر ایسی لعنت کروں کہ وہ اس کی قبر میں اس کے ساتھ داخل ہو جائے، بھلا کیونکر وہ اپنے لڑکے کو اپنا وارث بنائے گا حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں، وہ کیسے اس سے خدمت لے گا حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Ad Darda (RA) said “The Apostle of Allah (ﷺ) was in a battle. He saw a woman who was nearing the time when she was to deliver a child. “He said “Perhaps the master has intercourse with her”. They(the people) said “Yes”. He said “I am inclined to invoke a curse on him which will enter his grave with him. How can he make it (the child) an heir when it is not lawful for him? How can he take it into his service when that is not lawful for him”?