باب: جنگ میں قید ہونے والی عورتوں سے مباشرت کا مسئلہ
)
Abu-Daud:
Marriage (Kitab Al-Nikah)
(Chapter: Regarding Intercourse With Captives)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2159.
سعید بن منصور، ابومعاویہ سے وہ ابن اسحٰق سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں، کہا کہ ”حتیٰ کہ ایک حیض سے اس کا استبراء (رحم صاف) نہ کر لے۔“ اس میں «بحيضة» کا لفظ زیادہ کیا جو کہ ابومعاویہ کا وہم ہے مگر ابوسعید کی روایت میں صحیح ہے۔ اور اس میں مزید یہ ہے ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمانوں کے مال غنیمت کے جانوروں میں سے کسی پر سوار نہ ہو کہ جب اسے کمزور کر دے تو اسے واپس کر دے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمانوں کے مال غنیمت کے کپڑوں میں سے کوئی کپڑا نہ پہنے کہ جب اسے پرانا کر دے تو واپس کر دے۔) امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ «الحيضة» کا لفظ محفوظ نہیں ہے اور یہ ابومعاویہ کہ وہم ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن) . إسناده: حدثنا سعيد بن منصور: ثنا أبو معاوية عن ابن إسحاق... بهذا الحديث؛ قال: حتى يستبرئها بحيضة ، وزاد: ومن كان يؤمن... . قال أبو داود: الحيضة ليست محفوظة !
قلت: يعني: في هذا الحديث؛ وإلا فهي محفوظة في غيره، كما تقدم (1873) ، وتوضحه رواية ابن داسه عن المصنف بلفظ: زاد فيه: بحيضة ! وهو وهم من أبي معاوية، وهو صحيح من حديث أبي سعيد . نقله ابن التركماني. ولكني أقول: أبو معاوية محمد بن خازم ، ثقة محتج به في الصحيحين ؛ فتوهيمه ليس بالسهل؛ لا سيما وقد توبع على هذه الزيادة! فهي عند أحمد في حديث ابن لهيعة عن الحارث المتقدم، ولفظه: ... ولا يقع على أمَةٍ حتى تحيض؛ أو يبينَ حَمْلُها .
نکاح محض ایک جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں ہے ‘بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے جس شخص میں یہ رغبت نہ ہو وہ ناقص اور عیب دار ہوتا ہے اور سول اللہ ﷺ بشری صفات کا کامل ترین نمونہ تھے اور اسی مفہوم میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ«حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ»(سنن النسائی،عشرۃ النساء،حدیث:3391)’’دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں ‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘قرآن کریم کا صریح حکم ہے کہ(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ)(النور:32) ’’اپنے بے نکاح لوگوں کے نکاح کر دو اور اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔‘‘ فحاشی اور منکرات کا در بند کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے ہی نہیں علاوہ ازیں افراد امت کی تعداد بڑھانے کی لیے اس کی رغبت دی گئی ہے کہ (فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً)
جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار (توان) سےنکاح کر لو اور اگر اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے توایک ہی کافی ہے۔‘‘ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اورآدمی کو بدکاری سے بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں کہ نبیﷺ نے ہم سے فرمایا:’’اے نو جوانوں کی جماعت ! تم میں جو استطاعت رکھے وہ شادی کرے اس لیے کہ شادی سے آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ (بدکاری سے) محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص خرچ کی طاقت نہ رکھے ‘روزہ رکھے روزہ خواہش نفس ختم کر دے گا ۔‘‘ (صحیح مسلم‘النکاح ‘حدیث:1400) اسی طرح نکاح جنسی آلودگی‘جنسی ہیجان اور شیطانی خیالات و افعال سے محفوظ رکھتا ہے نکاح باہمی محبت اور مودت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ نکاح انسان کے لیے باعث راحت و سکون ہے۔ نکاح کی فضیلت ہی کی بابت نبئ کریم ﷺ نے فرمایاجب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے ‘لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی 1/162 وشعب الایمان:4/382‘383)جیسا کہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبئ کریم ﷺ کے چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے نبئ اکرم ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال دریافت کیا تو پوچھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا میں عورتوں س نکاح نہیں کروں گا۔کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبئ کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ان لوگوں کو کیا ہوا جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کہیں جب کہ میں رات کو نوافل پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ‘نفلی روزہ رکھتا ہوں ‘ترک بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘(صحیح مسلم ‘النکاح‘حدیث:1401
سعید بن منصور، ابومعاویہ سے وہ ابن اسحٰق سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں، کہا کہ ”حتیٰ کہ ایک حیض سے اس کا استبراء (رحم صاف) نہ کر لے۔“ اس میں «بحيضة» کا لفظ زیادہ کیا جو کہ ابومعاویہ کا وہم ہے مگر ابوسعید کی روایت میں صحیح ہے۔ اور اس میں مزید یہ ہے ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمانوں کے مال غنیمت کے جانوروں میں سے کسی پر سوار نہ ہو کہ جب اسے کمزور کر دے تو اسے واپس کر دے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمانوں کے مال غنیمت کے کپڑوں میں سے کوئی کپڑا نہ پہنے کہ جب اسے پرانا کر دے تو واپس کر دے۔) امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ «الحيضة» کا لفظ محفوظ نہیں ہے اور یہ ابومعاویہ کہ وہم ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی ابن اسحاق سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: ”یہاں تک کہ وہ ایک حیض کے ذریعہ استبراء رحم کر لے۔“ اس میں «بحيضة» کا اضافہ ہے، اور یہ ابومعاویہ کا وہم ہے اور یہ ابوسعید ؓ کی حدیث میں صحیح ہے، اور اس روایت میں یہ بھی اضافہ ہے: ”اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ مسلمانوں کے مال فیٔ کے جانور پر سواری نہ کرے کہ اسے دبلا کر کے واپس دے۔“ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ مسلمانوں کے مال فیٔ کا کپڑا نہ پہنے کہ پرانا کر کے لوٹا دے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ حیض کا لفظ محفوظ نہیں ہے یہ ابومعاویہ کا وہم ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The aforesaid tradition has also been transmitted by Ibn Ishaq through a different chain of narrators. This version has the traditional word “a menstrual course” in the phrase “till she is free from a menstrual course”. This is a misunderstanding on the part of the narrator Abu Mu’awiyah. This is correct in the tradition of Abu Sa’id Al Khudri (RA). This version has the additional words “he who believes in Allah and the Last Day should not ride on a mount belonging to the spoil of Muslims and when he makes it emaciated returns it; he who believes in Allaah and the Last Day should not put on cloth belonging to the spoils of Muslims and when makes it old (shabby) returns it. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said “The word “menstrual course” is not guarded. This is a misunderstanding on the part of Abu Mu’awiyah”.