Abu-Daud:
Divorce (Kitab Al-Talaq)
(Chapter: Regarding The Divorce According To The Sunnah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2183.
یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاقیں دی تھیں؟ انہوں نے کہا: ایک۔
تشریح:
1۔ یہ احادیث سورۃالطلاق کی پہلی آیت کی تفسیر ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد :(فطلِّقُوهُنَّ لِعدَّتِهِنَّ) (الطلاق:١) انھیں ان کی عدت کے موقع پر طلاق دو یعنی اس طہر کے ایام میں جن کی مباشرت نہ کی گئی ہو۔ 2۔ ایام حیض میں طلاق دینا خلاف سنت اور بدعت ہے۔ تاہم اگر کوئی ان ایام میں طلاق دے گا تو وہ واقع ہوجائے گی۔ 3۔ ایسی صورت میں صاحب طلاق کو رجوع کا حکم دیا جائے گا (تاہم اگر کوئی ان ایام میں طلاق دے گا تو وہ واقع ہوجائے گی۔ 3۔ ایسی صورت میں صاحب طلاق کو رجوع کا حکم دیا جائے گا (تاہم وہ ایک طلاق شمار ہوگی) اور رجوع کا حق صرف شوہر کو حاصل ہے ولی کو نہیں اور یہ رجوع واجب ہے۔ 4۔ حمل کے ایام میں بھی طلاق ہوسکتی ہے۔ 5۔ اور طلاق ایک ہی دینی چاہیے۔ اور اس کی آخری روایت میں جواب ہےاس روایت کا جودارقطنی میں آئی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں مگر وہ بالکل ضعیف ہے۔ صحیح یہی ہے کہ انہوں نے ایک طلاق دی تھی۔ 6۔ اور سب کے نزدیک طلاق کا صحیح طریقہ بھی یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دی جائے نہ کہ بیک وقت تین طلاقیں۔ بہ یک وقت تین طلاقیں دینا سب کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اور ناجائز ہے نبی ﷺ نے بھی اس پر سخت ناراضی اور برہمی کا اظہار فرمایا ہے۔ اگر طلاق دینے والے یہ طریقہ اختیار کرلیں تو اس مسئلے میں سرے سے اختلاف ہی پیدا ہو نہ حلالہ مروجہ جیسے لعنتی فعل کے اختیار کرنے ہی کی ضرورت پیش آئے۔ کیونکہ ایک طلاق کی صورت میں سب کے نزدیک عدت کے اندر رجوع کرنا اور عدت گزرنے کے بعد ان کے مابین دوبارہ نکاح کرنا جائز ہے۔ دوسری مرتبہ طلاق میں بھی اسی طرح دونوں باتیں جائز ہیں۔ اختلاف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب طلاق دینے کا غیر شرعی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور بیک وقت تین طلاقیں دے دی جاتی ہیں۔ اس صورت میں اہلحدیث کہتے ہیں کہ یہ ایک طلاق رجعی ہے کیونکہ ان کو بہ یک وقت نافذ کر دینے میں اللہ کی وہ حکمت اورمنشاء فوت ہوجاتی ہے جو اللہ نے (الطلاق مرتان) میں بیان فرمائی ہے۔ اور دوسرے حضرات تین ہی باور کرکے ہمیشہ کے لئے جدائی کا یا پھر حلالہ مروجہ ملعونہ کا فتوی جاری کر دیتے ہیں۔ اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ سفارش بڑی اہم ہے کہ بہ یک وقت تین طلاقوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ کاش اس پر عمل کی کوئی صورت پیدا ہو۔ فی الحال کم ازکم یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ تحریری طلاق میں خاوند اور طلاق نویس (وکیل وغیرہ) کو مجرم قرار دیا جائے اور اس کی کوئی تعزیری سزا بھی تجویز کی جائے۔ یہ ایک قابل عمل صورت ہے اس کے اختیار کرنے سے امید ہے کہ آہستہ آہستہ لوگ غلط طریقہ طلاق سے باز آجائیں گے۔ اللہ تعالی کسی حکومت کو اس اہم مسئلے کو اس طریقے سے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين) . إسناده: حدثنا الحسن بن علي: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا معمر عن أيوب عن ابن سيرين: أخبرني يونس بن جبير.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث في مصنف عبد الرزاق (10959) ... بهذا الإسناد أتم منه.
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاقیں دی تھیں؟ انہوں نے کہا: ایک۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ احادیث سورۃالطلاق کی پہلی آیت کی تفسیر ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد :(فطلِّقُوهُنَّ لِعدَّتِهِنَّ) (الطلاق:١) انھیں ان کی عدت کے موقع پر طلاق دو یعنی اس طہر کے ایام میں جن کی مباشرت نہ کی گئی ہو۔ 2۔ ایام حیض میں طلاق دینا خلاف سنت اور بدعت ہے۔ تاہم اگر کوئی ان ایام میں طلاق دے گا تو وہ واقع ہوجائے گی۔ 3۔ ایسی صورت میں صاحب طلاق کو رجوع کا حکم دیا جائے گا (تاہم اگر کوئی ان ایام میں طلاق دے گا تو وہ واقع ہوجائے گی۔ 3۔ ایسی صورت میں صاحب طلاق کو رجوع کا حکم دیا جائے گا (تاہم وہ ایک طلاق شمار ہوگی) اور رجوع کا حق صرف شوہر کو حاصل ہے ولی کو نہیں اور یہ رجوع واجب ہے۔ 4۔ حمل کے ایام میں بھی طلاق ہوسکتی ہے۔ 5۔ اور طلاق ایک ہی دینی چاہیے۔ اور اس کی آخری روایت میں جواب ہےاس روایت کا جودارقطنی میں آئی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں مگر وہ بالکل ضعیف ہے۔ صحیح یہی ہے کہ انہوں نے ایک طلاق دی تھی۔ 6۔ اور سب کے نزدیک طلاق کا صحیح طریقہ بھی یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دی جائے نہ کہ بیک وقت تین طلاقیں۔ بہ یک وقت تین طلاقیں دینا سب کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اور ناجائز ہے نبی ﷺ نے بھی اس پر سخت ناراضی اور برہمی کا اظہار فرمایا ہے۔ اگر طلاق دینے والے یہ طریقہ اختیار کرلیں تو اس مسئلے میں سرے سے اختلاف ہی پیدا ہو نہ حلالہ مروجہ جیسے لعنتی فعل کے اختیار کرنے ہی کی ضرورت پیش آئے۔ کیونکہ ایک طلاق کی صورت میں سب کے نزدیک عدت کے اندر رجوع کرنا اور عدت گزرنے کے بعد ان کے مابین دوبارہ نکاح کرنا جائز ہے۔ دوسری مرتبہ طلاق میں بھی اسی طرح دونوں باتیں جائز ہیں۔ اختلاف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب طلاق دینے کا غیر شرعی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور بیک وقت تین طلاقیں دے دی جاتی ہیں۔ اس صورت میں اہلحدیث کہتے ہیں کہ یہ ایک طلاق رجعی ہے کیونکہ ان کو بہ یک وقت نافذ کر دینے میں اللہ کی وہ حکمت اورمنشاء فوت ہوجاتی ہے جو اللہ نے (الطلاق مرتان) میں بیان فرمائی ہے۔ اور دوسرے حضرات تین ہی باور کرکے ہمیشہ کے لئے جدائی کا یا پھر حلالہ مروجہ ملعونہ کا فتوی جاری کر دیتے ہیں۔ اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ سفارش بڑی اہم ہے کہ بہ یک وقت تین طلاقوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ کاش اس پر عمل کی کوئی صورت پیدا ہو۔ فی الحال کم ازکم یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ تحریری طلاق میں خاوند اور طلاق نویس (وکیل وغیرہ) کو مجرم قرار دیا جائے اور اس کی کوئی تعزیری سزا بھی تجویز کی جائے۔ یہ ایک قابل عمل صورت ہے اس کے اختیار کرنے سے امید ہے کہ آہستہ آہستہ لوگ غلط طریقہ طلاق سے باز آجائیں گے۔ اللہ تعالی کسی حکومت کو اس اہم مسئلے کو اس طریقے سے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے خبر دی کہ انہوں نے ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاق دی؟ تو انہوں نے کہا: ایک۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Yunus bin Jubair said that he asked Ibn ‘Umar (RA) “How many times did you pronounce divorce to your wife? He replied, once”.