تشریح:
فوائد ومسائل: [قَطَعُوا مَا أَصَابَهُ الْبَوْلُ] ’’ جس کو پیشاب لگتا تھا، اسے کاٹ دیتے تھے۔‘‘ اس میں ابہام ہے کہ کس چیز کو کاٹتے تھے؟ ابوداؤد کی دوسری روایات میں سے ایک میں [جِلد] ’’چمڑے‘‘ کا اور دوسری میں [جَسَدَ] ’’جسم‘‘ کا ذکر ہے۔ جس کے لفظ کو شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف ابی داؤد میں منکر کہا ہے اور جلد سے مراد چمڑے کا لباس مراد لیا گیا ہے جو پہنا جاتا ہے۔ اس طرح کاٹے جانے والی چیز جسم کا حصہ نہیں بلکہ لباس (کپڑا یا چمڑا) ہوتا تھا جسے پیشاب لگ جاتا تھا، صحیح بخاری کی روایت سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں: [إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ أَحَدِهِمْ قَرَضَهُ] (بخاري، الوضوء، حدیث: 226) ’’جب ان میں سے کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا، تو وہ اسے کاٹ دیتا تھا۔‘‘ اس سے حسب ذیل باتیں مستفاد ہوتی ہیں: (1) اسلام ہمیشہ سے طہارت وپاکیزگی کا داعی رہا ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ احکام انتہائی سخت تھے۔ جس بدبخت نے لوگوں کو اس امر شرعی کی مخالفت پر ابھارا تھا، اسے قبر میں عذاب دیا گیا۔ (2) اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے روکنا، اس میں تحریف کرنا یا تاویل باطل سے اسے مہمل قرار دینا حرام اور شقاوت (بدبختی) کا کام ہے اور ایسا شخص عذاب الہٰی کا مستحق ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: منكر) . هكذا أورده المؤلف رحمه اللّه معلقاً، وسكت عليه هو والمنذري! وليس بجيد؛ فإن عاصماً- وهو ابن بهدلة- وإن كان ثقة حسن الحديث، فقد تكلموا فيه من قبل حفظه، فإذا روى ما يخالف فيه الثقات؛ لم يُحْتج به، كما
صنع في هذا الحديث، فقد رواه منصور عن أبي وائل فقال: ثوب أحدهم . وفي رواية عنه: جلد أحدهم ؛ كما رواه المصنف قبيل هذه الرواية، وقد أوردناها في صحيحه ؛ لصحة إسنادها، وذكرنا هناك الحديث بتمامه فراجعه (رقم 17) . ثم إنني لم أقف على رواية عاصم هذه، ولكني رأيت في المجمع (1/209) ما نصه: وعن أبي موسى قال: رأيت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يبول قاعداً، قد جافى بين فخذيه، حتى جعلت آوي له من طول الجلوس، ثم جاء قابضاً بيده على ثلاث وستين فقال: إن صاحب بني إسرائيل كأن أشد على البول منكم، كان معه مقراض، فإذا أصاب ثوْبهُ شيء من البول قصّه . رواه الطبراني في الكبير ، وفيه علي بن عاصم، وكأن كثير الخطأ والغلط، وينبّه على غلطه؛ فلا يرجعُ؛ ويحْتقِر الحفاظ . قلت: وغلطه في هذا الحديث واضح؛ فإن صاحب بني إسرائيل كان ينكر القص ولا يفعله، كما ثبت في صحيحه من حديث عبد الرحمن ابن حسنة، ومن حديث أبي موسى أيضاً في الصحيحين .