باب: شوہر اگر یوں کہے ” تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو ؟ “
)
Abu-Daud:
Divorce (Kitab Al-Talaq)
(Chapter: Regarding The Phrase: 'Your Matter Is In Your Hands')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2204.
حماد بن زید نے بیان کیا کہ میں نے ایوب سے پوچھا: آپ کو کسی کا علم ہے جو «أمرك بيدك» ” تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔“ کی تفصیل میں حسن (بصری) کی طرح کہتا ہو؟ (ان کی بیان اگلی روایت میں آ رہا ہے۔) ایوب نے کہا: نہیں مگر وہی جو ہم کو قتادہ نے بہ سند کثیر مولی ابن سمرہ سے، ابوسلمہ سے، انہوں نے سیدنا ابوہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی مانند بیان کیا۔ ایوب نے کہا: پھر کثیر مولی ابن سمرہ ہمارے پاس آئے تو میں نے ان سے (اس روایت کے متعلق) پوچھا۔ تو انہوں نے کہا: ”میں نے یہ کبھی بیان نہیں کیا۔“ پھر میں نے ان کی یہ بات قتادہ سے کہی تو انہوں نے کہا کہ بیان تو کیا ہے مگر بھول گئے ہیں۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: في إسناده ضعْفٌ ؛ كثِيْرٌ هذا ليس بالمشهور، ومع ذلك نسي هذا الحديث، وقد حدث به قتادة. وقال البيهقي: لم يثبُتْ من معرِفتِهِ ما يُوْجِبُ قبُوْل روايتِهِ . وقد وُثِّق؛ لكن أعلّه البخاريُ بالوقفِ على أبي هريرة. وقال النسائي: هذا حديثٌ منكر . واستغربه الترمذي. وأقرهم الحافظُ المنذري وابنُ القيم) . إسناده: حدثنا الحسنُ بنُ علي: ثنا سليمان بن حرْب عن حمادِ بن زِيد.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير كثير- وهو: ابنُ أبي كثِيْرٍ البصري، مولى عبد الرحمن بن سمُرة-، وليس بالمشهور. ترجمه البخاريُ في التاريخ (4/1/211) ، وابن أبي حاتم (3/2/156) ولم يذكرا فيه جرحاً ولا تعديلا. وقد روى عنه جمْغ من الثقات- غير قتادة- منهم: منصور بنُ المعتمر، وابن سيرين، وأيوب السخْتِيانيُ، وقد ذكره ابن حبان في ثقات التابعين وقال: يروي عن عبد الرحمن بن سمرة. روى عنه قتادة والبصريون . وقال العِجْليُ في ثقاته : تابعي ثقة . وفي التهذيب : وزعم عبد الحقِّ- تبعاً لابن حزْم- أنه مجهول. فتعقب ذلك عليه ابن القطان بتوثيقِ العِجْليِّ. وذكره العقيْليُّ في الضُّعفاء ، وما قال فيه شيئاً .
قلت: ولعل مستند العقيْليِّ هو: أنه مع كونه غير مشهورٍ ؛ قد نسِي هذا الحديث؛ مع أنه كان حدًث به قتادة، وجزم هذا بأنه قد نسِيه؛ فنسيانه إياة- مع قِلّةِ حديثه التي اسْتلْزمتْ عدم شهرتهِ- قد يدل على ضعفه، وقِلةِ ضبْطِه، ولعل في قول البيهقي المذكور آنفاً- ما يشهد لِما ذكرته. وقد انضمّ إلى ذلك إعلال البخاري للحديث بالوقف، واستنكار النسائيِّ، واستغراب الترمذي له. ولولا ذلك لمالتِ النفسُ إلى تحسينه، والله أعلم. والحديث أخرجه النسائي (2/97) ، والترمذي (1178) قالا: حدثنا علي بن نصر بن علي: حدثنا سليمان بن حرب... به، بلفظ: هل علمت أنً أحدا قال في: أمركِ بيدِكِ : أنها ثلاث؛ إلا الحسن... والباقي مثله. وكذلك أخرجه الحاكم (2/205- 206) ، وعنه البيهقي (7/349) من طريق أخرى عن سليمان بن حرب... به. وقال الترمذي: حديثٌ غريبٌ لا نعرفه إلا من حديث سليمان بن حرب عن حماد بن زيد. وسألت محمداً (يعني : البخاري) عن هذا الحديث؟ فقال: حدثنا سليمان بن حرب عن حماد بن زيد... بهذا، وإنما هو عن أبي هريرة موقوفٌ ، ولم يُعْرفْ حديث أبي هريرة مرفوعاً . وقال النسائي: هذا حديث منكر . وأعله البيهقي بجهالة حالِ كثير مولى ابن سمُرة؛ فقال: لم يثبت من معرفته ما يوجب قبُول روايته، وقول العامة بخلاف روايته . وخالفهم الحاكم فقال: حديث غريب صحيح ! ووافقه الذهبي! وأيده ابن التركماني !! وفيه ما سبق بيانه. والله أعلم.
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
حماد بن زید نے بیان کیا کہ میں نے ایوب سے پوچھا: آپ کو کسی کا علم ہے جو «أمرك بيدك» ” تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔“ کی تفصیل میں حسن (بصری) کی طرح کہتا ہو؟ (ان کی بیان اگلی روایت میں آ رہا ہے۔) ایوب نے کہا: نہیں مگر وہی جو ہم کو قتادہ نے بہ سند کثیر مولی ابن سمرہ سے، ابوسلمہ سے، انہوں نے سیدنا ابوہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی مانند بیان کیا۔ ایوب نے کہا: پھر کثیر مولی ابن سمرہ ہمارے پاس آئے تو میں نے ان سے (اس روایت کے متعلق) پوچھا۔ تو انہوں نے کہا: ”میں نے یہ کبھی بیان نہیں کیا۔“ پھر میں نے ان کی یہ بات قتادہ سے کہی تو انہوں نے کہا کہ بیان تو کیا ہے مگر بھول گئے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایوب سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ کسی اور نے بھی «أمرك بيدك» کے سلسلہ میں وہی بات کہی ہے جو حسن نے کہی تو انہوں نے کہا: نہیں، مگر وہی روایت ہے جسے ہم سے قتادہ نے بیان کیا، قتادہ نے کثیر مولی ابن سبرہ سے کثیر نے ابوسلمہ سے ابوسلمہ نے ابوہریرہ ؓ سے ابوہریرہ ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ ایوب کہتے ہیں: تو کثیر ہمارے پاس آئے تو میں نے ان سے دریافت کیا، وہ بولے: میں نے تو کبھی یہ حدیث بیان نہیں کی، پھر میں نے قتادہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ہاں کیوں نہیں انہوں نے اسے بیان کیا تھا لیکن وہ بھول گئے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah (RA): Hammad ibn Zayd said: I asked Ayyub (RA): Do you know anyone who narrates the tradition narrated by Al-Hasan about uttering the words (addressing wife). "Your matter is in your hand"? He replied: No, except something similar transmitted by Qatadah from Kathir, the client of Samurah, from Abu Salamah on the authority of Abu Hurayrah (RA) from the Prophet (ﷺ). Ayyub said: Kathir then came to us; so I asked him (about this matter). He replied: I never narrated it. I mentioned it to Qatadah who said: Yes (he narrated it) but he forgot.