مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2229.
سیدنا ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ثابت بن قیس ؓ کی بیوی نے ان سے خلع لیا تو نبی کریم ﷺ نے اس کی عدت ایک حیض مقرر فرمائی تھی۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے عمرو بن مسلم سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مرسل بیان کیا ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وقال الترمذي: حسن غريب ، والحاكم: صحيح الإسناد ، ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا محمد بن عبد الرحيم البزاز: ثنا علي بن بَحْرٍ القطان: ثنا هشام بن يوسف عن معمر عن عمرو بن مسلم عن عكرمة عن ابن عباس. قال أبو داود: وهذا الحديث رواه عبد الرزاق عن معمر عن عمرو بن مسلم عن عكرمة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... مرسلاً .
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الصحيح ؛ غير القطان، وهو ثقة. إلا أن عمرو بن مسلم- وهو الجَنَدي- وإن أخرج له مسلم؛ فقد ضعفه الجمهور من قبل حفظه. وقال الحافظ: صدوق له أوهام . وقد اختلف عليه في إسناده، كما أشار إلى ذلك المصنف بذكره رواية عبد الرزاق المرسلة، وهي عنده في المصنف (11858) . وسواءً كان الراجح في الحديث وصله أو إرساله؛ فهو صحيح لشواهده الآتية. والحديث أخرجه الترمذي (1185) ، والدارقطني (397) ، والحاكم (2/206) ، وعنه البيهقي (7/450) من طرق أخرى عن هشام بن يوسف... به . وحسنه الترمذي. وصححه الحاكم والذهبي كما ذكرت آنفاً. لكن زاد الدارقطني في المتن فقال: حيضة ونصفاً. وهي زيادة شاذة؛ بل منكرة، تفرد بها أحد رواة الدارقطني ممن دون هشام بن يوسف؛ خِلافاً لكل من رواه عن هشام. وبخاصة أن رواية عبد الرزاق المرسلة خالية عن هذه الزيادة، وكذلك الشأن في الطرق الأخرى والشواهد الآتي ذكرها. فلا تغتر بعد ذلك بقول القرطبي في تفسيره (3/145) - عقب رواية الدارقطني-: والراوي عن معمر هنا في الحيضة والنصف: هو الراوي عنه في الحيضة الواحدة، وهو هشام بن يوسف، خرج له البخاري وحده، فالحديث مضطرب من جهة الإسناد والمتن، فس ط الاحتجاج به في أن الخلع فسخ، وفي أن عدة المطلقة حيضة ! فأقول: كلا؛ ويشهد له ما رواه محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان: أن رُبَيعَ بنت مُعَوِّذِ ابن عَفْراءَ أخبرته: أن ثابت بن قيس بن شَماسِ ضرب امرأته، فكسر يدها- وهي جميلة بنت عبد الله بن أُبَي-، فأتى أخوها يَشتكيه إلى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فأرسل رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلى ثابت، فقال له: خذ الذي لها عليك، وخل سبيلها . قال: نعم. فأمرها رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن تتربص حيضة واحدة فَتَلْحَقَ بأهلها. أخرجه النسائي (2/109) من طريق يحيى بن أبي كثير قال: أخبرني محمد ابن عبد الرحمن... به.
قلت: وسنده صحيح على شرط البخاري. وتابعه أبو الأسود عن أبي سلمة بن عبد الرحمن ومحمد بن عبد الرحمن بن ثوبان عن الرُبَيع بنت مُعَوِّذ... مختصراً بالجملة الأخيرة منه. أخرجه الدارقطني (397) عن ابن لهيعة: نا أبو الأسود... وسنده لا بأس به في المتابعات والشواهد. وتابعه محمد بن عبد الرحمن مولى آل طلحة عن سليمان بن يسارعن الرَبَيع بنت مُعَوذ... به مختصراً نحوه: أخرجه الترمذي (1185) ، والبيهقي (7/450) . وسنده صحيح. وقال الترمذي: حديث الربيع بنت معوذ؛ الصحيح أنها أُمِرَتْ أن تعتد بحيضة . يعني: أن الآمر لها ليس هو النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وإنما هو عثمان بن عفان، كما في رواية صحيحة صريحة بذلك عند البيهقي، سأذكرها في الحديث الآتي إن شاء الله. لكن قد صرح عثمان- بعد أن أفتاها بذلك- برفعه إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقال لها: وأنا متبع في ذلك قضاء رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في مريم المَنَالية؛ كانت تحت ثابت ابن قيس بن شَمَّاس فاختلعت منه . أخرجه النسائي وابن ماجه (1/633- 634) بإسناد حسن. وقال الحافظ (9/328) : وإسناده جيد .
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
سیدنا ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ثابت بن قیس ؓ کی بیوی نے ان سے خلع لیا تو نبی کریم ﷺ نے اس کی عدت ایک حیض مقرر فرمائی تھی۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے عمرو بن مسلم سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مرسل بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس ؓ کی بیوی نے ان سے خلع کر لیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی عدت ایک حیض مقرر فرمائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو عبدالرزاق نے معمر سے معمر نے عمرو بن مسلم سے عمرو نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): The wife of Thabit ibn Qays separated herself from him for a compensation. The Prophet (ﷺ) made her waiting period a menstrual course. Abu Dawud said: This tradition has been transmitted by 'Abd al-Razzaq from Ma'mar from 'Amr b. Muslim from 'Ikrimah from the Prophet (ﷺ) in a mursal form (i.e. missing the link of the Companion).