Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Sexually Impure Person Eating)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
223.
محمد بن صباح بزاز «حدثنا ابن المبارك ، عن يونس ، عن الزهري» کی سند سے اس کے ہم معنی مروی ہے اور اس میں اضافہ ہے کہ: اور جب آپ حالت جنابت میں ہوتے ہوئے کچھ کھانا چاہتے تو اپنے ہاتھ دھو لیتے۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ ابن وہب نے بواسطہ یونس اس کو روایت کیا تو کھانے کے قصے کو ان کا قول بنا دیا یعنی سیدہ عائشہ ؓ پر موقوفاً روایت کیا ہے۔ جبکہ صالح بن ابی الاخضر بواسطہ زہری وہی بیان کرتا ہے جو ابن مبارک نے کہا۔ (یعنی نیند اور کھانے دونوں کا ذکر کیا) مگر اس سند میں شک ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت لینے والا عروہ ہے یا ابی سلمہ۔ اور اوزاعی نے بواسطہ «يونس عن الزهري عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت یا ہے جیسے کہ ابن مبارک نے۔
تشریح:
سنن نسائی میں کھانے کے ساتھ پینے کا بھی ذکر ہے۔ (سنن نسائي‘ حدیث:258) اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جنبی آدمی کو کھانے پینے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چائییں۔ تاہم عام حالات میں اگر ہاتھ صاف ہوں، تو کھانے پینے سے پہلے ہاتھ دھونےضروری نہیں ہیں‘ تاہم مستحب (پسندیدہ) ضرور ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرطهما. وقال الدارقطني والبغوي: صحيح ) . إسناده: حدثنا محمد بن الصباح البزاز قال: ثنا ابن المبارك عن يونس عن الزهري... بإسناده ومعناه؛ قلت: يعني: الذي قبله. وهذا إسناد صحيح أيضا على شرطهما. والحديث أخرجه النسائي (1/50) ، والدارقطني (46) ، وأحمد (6/118- 119 و 279) ، والبغوي في شرح السنة (2/34) من طرق عن عبد الله بن المبارك... به إلا أنه قال: وإذا أراد أن يأكل ويشرب. وليس عند الدارقطني: ويشرب؛ بل عنده: غسل كفيه ومضمض فاه، ثم طَعِمَ. وقال هو والبغوي: صحيح . ثم قال المصنف: قال أبو داود: ورواه ابن وهب عن يونس؛ فجعل قصة الأكل قولَ عائشة مقصوراً. ورواه صالح بن أبي الأخضر عن الزهري كما قال ابن المبارك؛ إلا أنه قال: عن عروة أو أبي سلمة. ورواه الأوزاعي عن يونس عن الزهري عن للنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كما قال ابن المبارك . قلت: رواية الأوزاعي هذه، ورواية ابن وهب قبلها؛ لم أقف على من أخرجهما. وأما رواية صالح بن أبي الأخضر؛ فأخرجها أحمد (6/192) قال: حدثنا وكيع قال: ثنا صالح بن أبي الأخضر عن الزهري عن عروة وأبي سلمة عن عائشة: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان إذا أر د أن يأكل وهو جنب؛ غسل يديه. قلت: هكذا في المسند : (عروة وأبي سلمة) بالواو العاطفة لا بالشك! وأرى أنها رواية صحيحة؛ فقد أخرجه الدارقطني (46) من طريق أبي ضمرة عن يونس عن ابن شهاب عن عروة وأبي سلمة... به. وأبو ضمرة: هو أنس بن عياض، وهو ثقة من رجال الصحيحين . وقد قال الدارقطني عقيبه: صحيح . نعم؛ حالفه طلحة بن يحيى؛ فرواه عن يونس عن الزهري عن أبي سلمة أو عروة... هكذا على الشك. لكن طلحة بن يحيى- وهو ابن النعمان الزُّرَقِي الأنصاري- وإن كان من رجال الشيخبن؛ فقد تكلم فيه بعضهم من قبل حفظه؛ فرواية أنس بن عياض مقدمة على روايته. ومما يقوي ذلك: أن لحديث عروة عن عائشة أصلاً في صحيح البخاري (1/312) وغيره؛ وإن كان ليس فيه الوضوء للأكل؛ فهذا زيادة من ثقة، وهي مقبولة، كما في الحديث الثاني من الباب.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
محمد بن صباح بزاز «حدثنا ابن المبارك ، عن يونس ، عن الزهري» کی سند سے اس کے ہم معنی مروی ہے اور اس میں اضافہ ہے کہ: اور جب آپ حالت جنابت میں ہوتے ہوئے کچھ کھانا چاہتے تو اپنے ہاتھ دھو لیتے۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ ابن وہب نے بواسطہ یونس اس کو روایت کیا تو کھانے کے قصے کو ان کا قول بنا دیا یعنی سیدہ عائشہ ؓ پر موقوفاً روایت کیا ہے۔ جبکہ صالح بن ابی الاخضر بواسطہ زہری وہی بیان کرتا ہے جو ابن مبارک نے کہا۔ (یعنی نیند اور کھانے دونوں کا ذکر کیا) مگر اس سند میں شک ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت لینے والا عروہ ہے یا ابی سلمہ۔ اور اوزاعی نے بواسطہ «يونس عن الزهري عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت یا ہے جیسے کہ ابن مبارک نے۔
حدیث حاشیہ:
سنن نسائی میں کھانے کے ساتھ پینے کا بھی ذکر ہے۔ (سنن نسائي‘ حدیث:258) اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جنبی آدمی کو کھانے پینے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چائییں۔ تاہم عام حالات میں اگر ہاتھ صاف ہوں، تو کھانے پینے سے پہلے ہاتھ دھونےضروری نہیں ہیں‘ تاہم مستحب (پسندیدہ) ضرور ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی زہری سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ جب آپ ﷺ کھانے کا ارادہ کرتے اور جنبی ہوتے، تو اپنے ہاتھ دھوتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن وہب نے بھی یونس سے روایت کیا ہے، اور کھانے کے تذکرہ کو ام المؤمنین عائشہ ؓ کا قول قرار دیا ہے، نیز اسے صالح بن ابی الاخضر نے بھی زہری سے روایت کیا ہے، جیسے ابن مبارک نے کیا ہے، مگر اس میں «عن عروة أو أبي سلمة» (شک کے ساتھ) ہے نیز اسے اوزاعی نے بھی یونس سے، یونس نے زہری سے، اور زہری نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، جیسے ابن مبارک نے کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
سنن نسائی میں کھانے کے ساتھ پینے کا بھی ذکر ہے (سنن نسائی حدیث ۲۵۸) اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جنبی آدمی کو کھانے پینے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چاہییں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘This Tradition has been narrated on the Authority of al-Zuhri through a different chain. It adds: If he intends to eat while he is defiled, he should wash both his hands. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Ibn Wahb narrated this tradition on the authority of Yunus. He described the fact of eating as the statement of ‘A’ishah (RA) (not the saying of the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم). It has also been narrated it from ‘Urwah or Abu Salamah. Al-Awza’I narrated it from Yunus on the Authority of Al-Zuhri from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) as narrated by Ibn al-Mubarak.