باب: لونڈی جسے آزاد کر دیا جائے جبکہ وہ کسی آزاد یا غلام کی زوجیت میں ہو
)
Abu-Daud:
Divorce (Kitab Al-Talaq)
(Chapter: Regarding A Slave Woman Who Was Married To Slave A Or Free Man And Then Freed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2232.
سیدنا ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ بریرہ ؓ کا خاوند کالے رنگ کا غلام تھا، جس کا نام مغیث تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو اختیار دیا تھا۔ (اپنے شوہر کی زوجیت میں رہے یا اس سے آزاد ہو جائے) اور اسے حکم دیا تھا کہ عدت گزارے۔
تشریح:
صحیح حدیث میں ہے کہ اسے تین حیض عدت گزارنے کا حکم دیا گیا تھا۔ (سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث:2077) کیونکہ وہ آزاد ہو چکی تھی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه البخاري وابن الجارود مختصراً) . إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا عفان: ثنا همام عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وأخرجه البخاري كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (9/335) من طريق شعبة وهمام عن قتادة... به مختصراً نحوه؛ دون قوله: فخيرها... وأفاد الحافظ أن هذا لفظ شعبة. وأما لفظ همام؛ فأخرجه أبو داود من طريق عفان عنه... وساقه أحمد عن عفان عن همام مطولاً، وفيه: أنها تعتد عِدَّة الحرة. كذا قال! وهو وهم منه رحمه الله؛ فإن الحديث في مسند أحمد (1/281) : ثنا عفان... به مطولاً كما قال؛ لكن ليس فيه: عِدَّة الحُرَّةِ. نعم، هذه الزيادة عنده (1/461) من غير طريق عفان، فقال: ثنا بهز: ثنا همام... به فساقه بطوله، وفيه. وأمرها أن تعتدَّ- قال همام مَرَّةً:- عِدَّةَ الحُرَّة. وأخرجه الدارقطني (413- 414) ، وعنه البيهقي (7/451) من طريق حَبَّانَ ابن هلال: نا همام... بلفظ: ففرق بينهما؛ وجعل عليها عدة الحُرَّةِ-.. وقال: قال أبو بكر النيسابوري: حَوَّدَ حبان في قوله: عدة الحرة-؛ لأن عفان بن مسلم وعمرو بن عاصم روياه فقالا: وأمرها أن تعتد... ولم يذكرا: عدة الحُرَّةِ.. قال الإمام أحمد رحمه الله: وكذلك قاله هُدْبَة عن همام: فأمرها أن تعتد عدة حرة . وتابعه حَجَّاج الباهلي عن قتاده... بلفظ: وحدَّث ابن عباس رضي ا له عنهما أن أبا بكر رضي الله عنه حَدَّث: أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جعل عليها عدة الحرة. أخرجه البيهقي. وسنده صحيح، والباهلي: هو حجاج بن حجاج الأحول. ولهذه الزيادة شاهد من حديث الحسن البصري... مرسلاً: أخرجه ابن أبي شيبة (5/181) بسند صحيح عنه. ثم أخرجه عن إبراهيم والزهري... نحوه. وله شاهد آخر من حديث عائشة، لعله يأتي التنبيه عليه قريباً. وبمجموع ما ذكرنا لهذه الزيادة من شواهد؛ يتبين ضعف مَيْل ابن القيم إلى أن قوله: عدة الحرة... مدرج! والله أعلم.
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ بریرہ ؓ کا خاوند کالے رنگ کا غلام تھا، جس کا نام مغیث تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو اختیار دیا تھا۔ (اپنے شوہر کی زوجیت میں رہے یا اس سے آزاد ہو جائے) اور اسے حکم دیا تھا کہ عدت گزارے۔
حدیث حاشیہ:
صحیح حدیث میں ہے کہ اسے تین حیض عدت گزارنے کا حکم دیا گیا تھا۔ (سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث:2077) کیونکہ وہ آزاد ہو چکی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ بریرہ ؓ کے شوہر ایک کالے کلوٹے غلام تھے جن کا نام مغیث ؓ تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں (مغیث کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا اور (نہ رہنے کی صورت میں) انہیں عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas (RA) said “The husband of Barirah was a black slave called Mughith. The Prophet (ﷺ) gave her choice and commanded her to observe the waiting period”.