مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2252.
سیدنا سہل بن سعد ؓ اس حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ وہ عورت حاملہ تھی تو شوہر نے اس کے حمل کا انکار کیا۔ چنانچہ لڑکے کو ماں کی نسبت سے پکارا جاتا تھا۔ اور پھر وراثت میں بھی یہی طریقہ چل پڑا کہ بچہ اپنی ماں کا وارث بنتا اور ماں اپنے بچے کی وارث بنتی جتنا کہ اللہ عزوجل نے اس کا حصہ مقرر کیا ہے۔
تشریح:
معلوم ہوا کہ اگر کوئی اپنی بیوی کے حمل کا انکار کردے تو قاضی ان کے مابین لعان کرا دے اور بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. وأخرجه البخاري بإسناد المؤلف) . إسناده: حدثنا سليمان بن داود العَتَكِيُّ: ثنا فُلَيْحٌ عن الزهري عن سهل بن سعد. قلت: وهذا إسناد على شرط الشيخين؛ لولا أن فليحاً- وهو ابن سليمان المدني- كثير الخطأ، كما في التقريب . والحديث أخرجه البخاري (8/362- 363) ... بإسناد المصنف ومتنه. وأخرجه البيهقي (7/401) من طرق أخرى عن سليمان بن داود العَتَكِي... به. وتابعه ابن جريج: أخبرني ابن شهاب... به؛ دون قوله: فأنكر حملها. أخرجه البخاري (3/373) من طريق عبد الرزاق، وتقدم قريباً. ولجملة الميراث شواهد، تأني في الكتاب برقم (2582- 2583) . ويشهد للملاعنة على الحَبَلِ: حديث ابن مسعود رضي الله عنه: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاعَنَ بالحَبَلِ. أخرجه البيهقي (7/405) بسند صحيح عنه. وحديث ابن عباس: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاعَنَ بالحمل. أخرجه أحمد (1/355) من طريق عَبَّاد بن منصور عن عكرمة عن ابن عباس. وعباد ضعيف. لكن تابعه أبو الزناد عن القاسم بن محمد أنه سمع ابن عباس يقول: إن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاعَنَ بين العجلاني وامرأته- قال: وكانت حُبْلَى- فقال: والله! ما قَر بْتها منذ عَفَرْنا (قال: والعفر: أن يسقي النخل- بعد أن يترك من السقي- بعد الإبار بشهرين) . قال: وكان زوجها حَمْشَ الساقين والذراعين، أصهب الشعرة، وكان الذي رُمِيَتْ به ابنَ السّحْمَاء، قال: فولدت غلاماً أسود أجلى جعداً عَبْلَ الذراعين. أخرجه أحمد (1/335- 336) . وإسناده صحيح على شرط الشيخين. وأصله عند البخاري (9/374- 376 و 380- 381) ... بنحوه مع تقديم وتأخير. ورواه نحوه من حديث عكرمة عنه نحوه، وهو الآتي في الكتاب بعد حديث.
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
تمہید باب
(لعان )(لام کی زیر کے ساتھ ) لَعْنَةٌ سے ماخوذہے اس کے لغوی معنی ہیں "باہم ایک دوسرے کو لعنت کرنا"جب کوئی شخص کسی عفیفہ (پاک دامن عورت )کو زنا کی تہمت لگادے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ چار گواہ پیش کرے ،ورنہ اس کو اسّی درّے حد لگے لگی ۔ (سورۃ النور :4)لیکن شوہر اس عام قاعدے سے مستثنیٰ ہے ۔ یعنی اگر وہ اپنی بیوی کی خیانت فحش پر مطلع ہو اور چار گواہ نہ ہوں تو وہ قاضی کے رو برو اپنے دعوائے تہمت زنا کے سچ ہونے پر چار قسمیں کھائے اور پانچوں بار اپنے آپ کو لعنت کرے کہ اگر میں اپنی اس بات میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو ۔ پھر جوابا عورت اگر تسلیم نہیں کرتی تو اپنے دفاع میں چا ر قسمیں کھائے کہ یہاپنی بات میں جھوٹا ہے اور پانچویں بار یو ں کہے کہ اگر یہ سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو ۔ اس پورےعمل کو "لعان "سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کے بعد زوجین (میاں ،بیوی )میں فورا ابدی علیحدگی ہو جاتی ہے ۔ اور رجوع نہیں ہو سکتا ۔صورۃ النور میں اس کا بیان ان آیات میں آیا ہے (وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (6) وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (7) وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (8) وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ)(النور :6-9)
سیدنا سہل بن سعد ؓ اس حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ وہ عورت حاملہ تھی تو شوہر نے اس کے حمل کا انکار کیا۔ چنانچہ لڑکے کو ماں کی نسبت سے پکارا جاتا تھا۔ اور پھر وراثت میں بھی یہی طریقہ چل پڑا کہ بچہ اپنی ماں کا وارث بنتا اور ماں اپنے بچے کی وارث بنتی جتنا کہ اللہ عزوجل نے اس کا حصہ مقرر کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اگر کوئی اپنی بیوی کے حمل کا انکار کردے تو قاضی ان کے مابین لعان کرا دے اور بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے سہل بن سعد ؓ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ: ”وہ عورت حاملہ تھی اور اس نے اس کے حمل کا انکار کیا، چنانچہ اس عورت کا بیٹا اسی طرف منسوب کر کے پکارا جاتا تھا، اس کے بعد میراث میں بھی یہی طریقہ رہا کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصہ میں ماں لڑکے کی وارث ہوتی اور لڑکا ماں کا وارث ہوتا۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The tradition mentioned above has also been transmitted by Sahl bin Sa’d (RA) through a different chain of narrators. This version has “She was pregnant, he denied pregnancy from him. So her son was attributed to her. In the law of succession the practice (sunnah) was established that the son gets a share in the inheritance of his mother and the mother gets the share in the inheritance of her son according to the shares prescribed by Allah the Exalted.