مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2268.
ابن شہاب نے اپنی سند سے مذکورہ بالا کے ہم معنی بیان کیا سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: آپ ﷺ بڑے خوش خوش میرے پاس تشریف لائے۔ آپ ﷺ کے چہرے کی دھاریاں چمک رہی تھیں۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اسامہ سیاہ اور زید ؓ سفید رنگ کے تھے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں «أسارير وجهه» کا لفظ ابن عیینہ نے یاد نہیں رکھا۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں «أسارير وجهه» کے الفاظ ابن عیینہ کی تدلیس ہے، جو کہ انہوں نے زہری سے نہیں سنے بلکہ کسی اور سے سنے ہیں۔ یہ الفاظ لیث وغیرہ کی روایت میں آئے ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: احمد بن صالح کہا کرتے تھے کہ سیدنا اسامہ ؓ انتہائی کالے رنگ کے تھے جیسے کہ تارکول ہو اور زید ؓ سفید رنگ کے تھے جیسے کہ روئی۔
تشریح:
حضرت زیدبن حارثہ رجی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے مولی (آزاد کردہ غلام ) تھےاور شرع ایام اسلام میں آپ کے متنبہی (لےپالک) بھی کہلاتے رہتے تھے۔ ان صاحبزادے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکو انتہائی محبوب تھے۔ ان کا لقب ہی حب رسول الله (رسول اللہ ﷺ کے لاڈلے اور چہیتے) پڑگیا تھا۔ باپ بیٹے میں رنگ کا فرق تھا کیونکہ اسامہ ماں ام ایمن تھی جو حبشن تھیں۔ انہیں رنگ پر ان کا رنگ آیا تو کئی جاہل ان کے نسب پر طعن کرتے تھے جوکہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے اذیت کا باعث تھا۔ مجزز مدلحجی قبیلہ بنو اسد کا معروف قیافہ شناس تھا اور مشرکین اس کی بات قبول کرتے تھے۔ کہیں گزرتے ہوئے اس نے ان دونوں باپ بیٹے کو دیکھ لیا جبکہ ان کے چہرے ڈھنپے ہوئے تھے اور پاؤں ننگے تھے۔ تو اس نے غالباً اپنے علمی رعب کا اظہار کرنےکے لیے یہ جملہ کہ دیا کہ یہ پاؤں باپ بیٹے کے ہیں۔ یہ جملہ مسلمانوں کے لیے حق کی تائید وتقویت اور شبہات کے ازالے کا باعث ثابت ہوا۔ اس سے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو خوشی ہوئی کہ کفار کا معتقد ان کے اپنے طعن کی تردید کر رہا ہے۔۔۔۔ اس واقعہ میں فقہی استدلال یہ ہے کہ اگر کہیں کسی بچے کے بارے میں کئی لوگ مدعی ہوں یا کسی عورت سے کسی شبہے کی وجہ سے دو تین افراد نے مباشرت کرلی ہو اور بچے کے بارے میں واضح نہ ہوکہ کس کا ہے؟ تو کسی ماہر اور عادل قیافہ شناس کے رائے سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ علم سراسر باطل ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کے قول پر خوشی کا اظہار نہ فرماتے۔ گزشتہ حدیث لعان (حدیث:2252) میں رسول اللہﷺ کا بیان گزرا ہے کہ بچہ اگر اس اس طرح کا ہوا تو فلاں کا ہوگا۔ اس میں علم قیافہ کی اصلیت کی دلیل ہے۔ نیز حدیث ام سلیم رضی اللہ عنہ میں آتا ہے کہا گر عورت کو احتلام نہیں ہوتا تو بچے کی اس کے ساتھ مشابہت کیونکر ہوتی ہے؟ (صحیح بخاری، العلم، حدیث :130 و صحیح مسلم، الحیض، حدیث:313)
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (12/46- 47) ، ومسلم (4/172) ، والنسائي (2/108) ، وابن ماجه (2/59- 60) ، والحميدي (239) كلهم من طرق عن سفيان... به. ثم أخرجه البخاري (6/446 و 7/70) ، ومسلم والنسائي، وأحمد (6/82 و 226) من طرق أخرى عن الزهري... به. وقد ذكره المؤلف من طريق أحدهما؛ وهو الآتي بعده.
طلاق کے لغوی واصطلاحی تعریف : (الطلاق،اطلاق) سے ماخوذ ہےجس کا مطلب "الا رسال والترک "یعنی کھول دینا اور ترک کر نا ہے "عرب کہتے ہیں "اطلعت الا سیر " میں نے قیدی کو چھوڑ دیا اور اسے آزاد کر دیا "اصطلاح میں طلاق کی تعریف یوں کی گئی ہے (ھو حل رابطہ الزواج وانھار العاقتہ الزوجیہ )"ازدواجی تعلق کو ختم کرنا اور شادی کے بندھن کو کھول دینا ،طلاق کہلاتا ہے "
مر داور عورت کے مابین نکاح ایک محترم رشتہ ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ان کے مابین انس وموانست کے حالات قائم نہ رہ سکیں تو وہ باوقار انداز میں علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام "طلاق "ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی ،چاہے حالات کیسے ہی ہوں ،جیسے کی عیسائیوں یا ہندووں کا معمول ہے ۔ اسی طرح یہ تصور بھی صحیح نہیں کہ عورت کو پاو ں کو جوتا سمجھ لیا جائے جب چاہاپہن لیا اور جب چاہا اتار دیا ۔ اسلام نے اس عمل جدائی کو انتہائی اشد ضرورت کے ساتھ مقید کیا ہے اور اس عقید کو ختم کرنے کا حق صرف مر دکو دیا گیا ہے ۔ اس حق کے بغیر اس گھر ،خاندان اور معاشرے کا نظام مرتب اور پائیدار نہیں ہو سکتا ۔ عورت اگر علیحدہ ہوتا چاہے تو اس کے لئے خلع تو اسکے لئے خلع کے ذریعے سے یہ گنجائش موجودہے اگر خاوند اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو عورت خلع کے لئے عدالت سے رجو ع کرسکتی ہے لیکن اسلام نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا ہے ۔ زوجین کے مابین علیحدگی (طلاق)کے خاص آداب اور اسالیب ہیں دور جاہلیت میں لوگ سیکڑوں طلاقیں دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے ،اسی طرح عورت عمر بھر مظلومیت کا شکار رہتی تھی مگر اسلام کو زیادہ سے زیادہ صرف تین دفعہ تک محدود کر دیا ہے اور ان تین دفعہ کو ایک وقت میں نافذ کرنا ناجائزٹھہرایا ہے ۔ بعدازطلاق عورت کے لئے عدت (ایام انتظار )مقرر کیے ہیں ان دونوں میں فریقین کو اپنے فیصلے پر غور وفکر کرنے کے لئے عام حالات میں تین ماہ دیے گئے ہیں وہ اپنے حالات پر نظر ثانی کرکے بغیر کسی نئے عقد کے اپنا گھر بسا سکتے ہیں ، مگر ایساصرف دوبار ہو سکتا ہے ۔ تیسری دفعہ کی طلاق آخری موقع ہو گی اور اس کے بعد ان کے درمیان رجوع ہو سکتا ہے ،نہ نکاح(حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) "حتی کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے "(البقرہ 230 )ان سطور میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دلیل ہیں کہ اسلام ایک فطری اور جامع دین ہے ،دنیا اور آخرت کی فلاح اسی کے منہاج میں ہے ، قرآن مجید میں یہ مسائل کئی جگہ بیان ہو ئے ہیں ،بالخصوص سورۃ البقرہ میں(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ.......الخ) آیت 228 وما بعدہ ملا حظہ ہوں ۔
طلاق کی اقسام : اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ازدواجی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئےمتعددتعلیمات دی ہیں ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے یہ خوبصورت تعلق شدید اختلافات ،سخت غلط فہمیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو بھی اسلام نے رواداری ،شائستگی اور اعلی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے تعلیم دی ہے ، اس تعلق کو نبھانے کے لئے ایک مہذب طریقہ سمجھا یا تھا تو اب اس کو ختم کرنے کے لئے بھی افراط وتفریط سے مبرا ،خوبصورت اور انسانی فلاح وبہبود کا ضامن طریقہ عطا کیا ہے ۔ لہذاطلاق دینے کے طریقے کے لحاظ سے طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں :
1 : طلاق سنی : یہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اس طریقے کے مطابق جب کوئی شخص اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنا چاہے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)کہ "اے نبی !(لوگوں سے کہہ دو )جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو "یعنی ایام ماہواری کے ختم ہونے اور طہارت کے ایام شروع ہوتے ہی طلاق دو ۔ ہم بستری کر لینے کے بعد طلاق دینا درست نہیں ۔ اس طریقہ طلاق کو "طلاق سنت "کہتے ہیں ۔
2 : طلاق بدعی : یہ وہ طریقہ طلاق ہے جس میں خاوند اپنی بیوی کو ایام حیض ،نفاس یا اس"طہر "میں طلاق دے دیتا ہے جس میں اس نے ہم بستری کی ہو ۔ یہ طریقہ شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور غلط ہے لہذا ایسے طریقے سے طلاق دینے والے سخت گناہ گاہوں گے ۔
3 : طلاق بائن : یہ ایسا طریقہ ہے جس میں مر د کا حق رجوع جاتا رہتا ہے ، مثلا اس نے ایک طلاق سنت طریقے سے دی اور پھر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہو گئی یا دو عادل منصفوں نے ان کے درمیان طلاق دلوائی تھی یا مرد نے حق مہر واپس لے کر عورت کو خلع دیا تھا یا عورتسے ہم بستری سے قبل ہی طلاق دے دے تھی ۔ ان تمام صورتوں میں اگر دوبارہ باہمی رضا مندی سے نکاح جد ید کر نا چاہیں تو نئے حق مہر کے تعین سے کرسکتے ہیں لیکن اگر مرد تین طلاقیں وقفے وقفے سے دے چکا ہو تو پھر اس کا یہ حق بھی ساقط ہو جاتا ہے الا یہ کہ وہ وعور ت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں جائے اور پھر اس کے فوت ہونے یا طلاق دینے پر دوبارہ پہلے شخص سے نکاح کر لے ۔
4 : طلاق رجعی : یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے اور پھر اگر چاہے تو ایام میں رجوع کر لے اگر چہ عورت کی رضا مندی نہ ہو کیو نکہ اللہ تعالی نے مردکو یہ اختیار دیا ہے اور اس کا حق دو مرتبہ ہے ،تیسری مر تبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق ختم ہو جائے گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)"اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس بلانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں "نیز فرمایا (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)"یہ طلاقیں ( جن میں رجوع کا حق ہے )دو مر تبہ ہیں پھر یا توا چھائی سے روکناہے یا عمدگی سے چھوڑدیناہے۔
ابن شہاب نے اپنی سند سے مذکورہ بالا کے ہم معنی بیان کیا سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: آپ ﷺ بڑے خوش خوش میرے پاس تشریف لائے۔ آپ ﷺ کے چہرے کی دھاریاں چمک رہی تھیں۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اسامہ سیاہ اور زید ؓ سفید رنگ کے تھے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں «أسارير وجهه» کا لفظ ابن عیینہ نے یاد نہیں رکھا۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں «أسارير وجهه» کے الفاظ ابن عیینہ کی تدلیس ہے، جو کہ انہوں نے زہری سے نہیں سنے بلکہ کسی اور سے سنے ہیں۔ یہ الفاظ لیث وغیرہ کی روایت میں آئے ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: احمد بن صالح کہا کرتے تھے کہ سیدنا اسامہ ؓ انتہائی کالے رنگ کے تھے جیسے کہ تارکول ہو اور زید ؓ سفید رنگ کے تھے جیسے کہ روئی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت زیدبن حارثہ رجی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے مولی (آزاد کردہ غلام ) تھےاور شرع ایام اسلام میں آپ کے متنبہی (لےپالک) بھی کہلاتے رہتے تھے۔ ان صاحبزادے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکو انتہائی محبوب تھے۔ ان کا لقب ہی حب رسول الله (رسول اللہ ﷺ کے لاڈلے اور چہیتے) پڑگیا تھا۔ باپ بیٹے میں رنگ کا فرق تھا کیونکہ اسامہ ماں ام ایمن تھی جو حبشن تھیں۔ انہیں رنگ پر ان کا رنگ آیا تو کئی جاہل ان کے نسب پر طعن کرتے تھے جوکہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے اذیت کا باعث تھا۔ مجزز مدلحجی قبیلہ بنو اسد کا معروف قیافہ شناس تھا اور مشرکین اس کی بات قبول کرتے تھے۔ کہیں گزرتے ہوئے اس نے ان دونوں باپ بیٹے کو دیکھ لیا جبکہ ان کے چہرے ڈھنپے ہوئے تھے اور پاؤں ننگے تھے۔ تو اس نے غالباً اپنے علمی رعب کا اظہار کرنےکے لیے یہ جملہ کہ دیا کہ یہ پاؤں باپ بیٹے کے ہیں۔ یہ جملہ مسلمانوں کے لیے حق کی تائید وتقویت اور شبہات کے ازالے کا باعث ثابت ہوا۔ اس سے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو خوشی ہوئی کہ کفار کا معتقد ان کے اپنے طعن کی تردید کر رہا ہے۔۔۔۔ اس واقعہ میں فقہی استدلال یہ ہے کہ اگر کہیں کسی بچے کے بارے میں کئی لوگ مدعی ہوں یا کسی عورت سے کسی شبہے کی وجہ سے دو تین افراد نے مباشرت کرلی ہو اور بچے کے بارے میں واضح نہ ہوکہ کس کا ہے؟ تو کسی ماہر اور عادل قیافہ شناس کے رائے سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ علم سراسر باطل ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کے قول پر خوشی کا اظہار نہ فرماتے۔ گزشتہ حدیث لعان (حدیث:2252) میں رسول اللہﷺ کا بیان گزرا ہے کہ بچہ اگر اس اس طرح کا ہوا تو فلاں کا ہوگا۔ اس میں علم قیافہ کی اصلیت کی دلیل ہے۔ نیز حدیث ام سلیم رضی اللہ عنہ میں آتا ہے کہا گر عورت کو احتلام نہیں ہوتا تو بچے کی اس کے ساتھ مشابہت کیونکر ہوتی ہے؟ (صحیح بخاری، العلم، حدیث :130 و صحیح مسلم، الحیض، حدیث:313)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی زہری نے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت بیان کی ہے اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں: آپ ﷺ میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے آپ کے چہرے کی لکیریں چمک رہی تھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» کے الفاظ کو ابن عیینہ یاد نہیں رکھ سکے، ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» ابن عیینہ کی جانب سے تدلیس ہے انہوں نے اسے زہری سے نہیں سنا ہے انہوں نے «أسارير وجهه» کے بجائے «لأسارير من غير» کے الفاظ سنے ہیں اور «أسارير» کا ذکر لیث وغیرہ کی حدیث میں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن صالح کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسامہ ؓ تارکول کی طرح بہت زیادہ کالے تھے۱؎ اور زید ؓ روئی کی طرح سفید۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: کیونکہ ان کی والدہ جن کا نام برکۃ تھا اور کنیت ام ایمن تھی بہت کالی اور حبشی خاتون تھیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The tradition mentioned above has also been transmitted by ibn Shihab through a different chain of narrators to the same effect. This version adds “She said: he entered upon me looking pleased with the lines of his face brightened. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: “Ibn ‘Uyainah did not remember the words “the lines of his face”. Abu Dawud said “The words “the lines of his face” have been narrated by Ibn ‘Uyainah himself. He did not hear Al Zuhri say (these words). He heard some person other than Al Zuhri say these words. The words “the lines of his face” occur in the tradition narrated by Al Laith and others. Abu Dawud said “ I heard Ahmad bin Salih say “Usamah was very black like tar and Zaid was white like cotton”,