Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Sexually Impure Person Delaying Ghusl)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
227.
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمايا: ”جس گھر میں تصویر، کتا اور جنبی موجود ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔“
تشریح:
اس حدیث میں ’’ملائکہ کے داخل نہ ہونےسےمراد‘‘ رحمت کےفرشتےہیں۔ کراماًکاتبین انسان سے جدا نہیں ہوتے۔ اور تصویر سے مراد بت اورروح والی اشیاء کی تصویرہے جبکہ اسے زینت کے لیے لٹکایا گیا ہو۔ اگراس کی اہانت ہوتی ہوتوایک حدتک رخصت ہے۔ اور کتے سے مراد عام کتا ہے نہ کہ شکاری یا حفاظت والا، کیونکہ یہ جائزہیں۔ یہ روایت شیخ البانی کے نزدیک ضعیف ہے، اس لیےجنبی آدمی کی بابت یہ کہنا صحیح نہیں کہ اس کی وجہ سےفرشتےنہیں آتے۔ تاہم بشرط صحت، اس کی توجیہ یہ ممکن ہےکہ جنبی شخص تساہل کا مظاہرہ کرتے ہوئےغسل نہ کرے اور نمازیں بھی ضائع کردے۔ توکسی گھرمیں ایسےجنبی کا وجود یقیناً ملائکہ رحمت کے آنے میں مانع ہو سکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ فيه اضطراب وجهالة. وقد ضعفه البخاري فقال: عبد الله بن نُجي الحضرمي عن أبيه عن علي؛ فيه نظر . وأشار الحافظ العراقي إلى أن الحديث ضعيف لا يصح. وهو في الصحيحين وغيرهما من حديث أبي طلحة الأنصاري دون قوله: ولا جنب : فهي زيادة منكرة. وقد رواه المصنف أيضاً في اللباس ، وهو من شرط الكتاب الآخر، فانظره فيه (رقم...) [48- باب في الصور]. إسناده: حدثنا حفص بن عمر النمرِيُ قال: ثنا شعبة عن علي بن مُدْرِك عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير عن عبد الله بن نُجي. وهذا إسناد ضعيف؛ قال المنذري في مختصره : وقال البخاري: عبد الله بن نجي الحضرمي عن أبيه عن علي؛ فيه نظر. وكذا قال ابن عدي. وضعفه الدارقطني كما يأتي. وقال الشافعي: مجهول. وقال النسائي: ثقة. وذكره ابن حبان في الثقات ... . وأما أبوه نجي؛ فذكره ابن حبان في الثقات أيضاً؛ لكنه قال: لا يعجبني الاحتجاج بخبره إذا انفرد . وأما العجلي فقال: تابعي ثقة ؛ مع أنه لا يذكرون أنّه روى عنه أحد غير ابنه! ولذلك قال الذهبي في الميزان : ولا يُدْرى من هو؟! . وقال الحافظ في التقريب : مقبول ؛ أي: لين الحديث إذا تفرد، كما نص عليه في المقدمة. فقول النووي في المجموع (2/157) : إسناده جيد ! غيرجيد. ولذلك أشار الحافظ ولي الدين العراقي لضعفه. وقد نقل كلامه في ذلك السيوطي في حاشيته على سنن النسائي (1/51) ؛ فراجعه. والحديث أخرجه النسائي (1/50- 51) ، والحاكم (1/171) ، والبيهقي (1/201) ، وأحمد (2 رقم 632 و 815 و 1172) من طرق شتى عن شعبة... به. وقال الحاكم: هذا حديث صحيح؛ فإن عبد اللّه بن نجي من ثقات الكوفيين ! ووافقه الذهبي! وفيه ما سبق. وقد اختلف في إسناده: فرواه من أشرنا إليهم عن شعبة... هكذا. وأخرجه الطيالسي (رقم 110) ، فقال: حدثنا شعبة عن علي بن مدرك قال: سمعت أبا زرعة بن عمرو بن جرير يحدث عن عبد الله بن نجي عن علي... به. فأسقط من الإسناد: عن أبيه. وتابعه غُندر- واسمه: محمد بن جعفر- عن شعبة. أخرجه ابن ماجه (2/386) ؛ لكن سقط من الطابع من سنده: شعبة؛ فصار: غندر عن علي بن مدرك! وهو خطأ واضح؛ فإن غندراً إنما يروي عن شعبة؛ والحديث حديثه. وكذلك رواه جابر الجعفي عن عبد الله بن نجي عن علي. أخرجه أحمد (رقم 845 و 1289) . وكذلك رواه الحارث العُكْلِي عن عبد الله بن نجي عن علي. أخرجه أحمد (رقم 608) . لكنه من طريق أبي بكر بن عياش- وهو سيئ الحفظ-. ومثله- بل دونه- جابر الجعفي. فهو- على هذا- منقطع؛ قال ابن معين: عبد الله بن نجي لم يسمع من علي، بينه وبينه أبوه . وقال الدارقطني: يقال: إنه لم يسمع هذا من علي . قال: وليس بقوي في الحديث . وبالجملة؛ فالحديث إن كان من رواية عبد الله بن نجي عن أبيه؛ فهو مجهول. وإن كان من رواية عبد الله عن علي؛ فهو منقطع. وعلى كل حال؛ فهو ضعيف الإسناد. ثم إن قوله فيه: ولا جنب منكر؛ لأن الحديث في الصحيحين وغيرهما من حديث أبي طلحة الأنصاري بدون هذه الزيادة. وسيأتي في الكتاب الآخر- إن شاء اللّه تعالى- (رقم...) [48- باب في الصور]. ولم ترد هذه الزيادة في رواية ابن ماجه.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمايا: ”جس گھر میں تصویر، کتا اور جنبی موجود ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ’’ملائکہ کے داخل نہ ہونےسےمراد‘‘ رحمت کےفرشتےہیں۔ کراماًکاتبین انسان سے جدا نہیں ہوتے۔ اور تصویر سے مراد بت اورروح والی اشیاء کی تصویرہے جبکہ اسے زینت کے لیے لٹکایا گیا ہو۔ اگراس کی اہانت ہوتی ہوتوایک حدتک رخصت ہے۔ اور کتے سے مراد عام کتا ہے نہ کہ شکاری یا حفاظت والا، کیونکہ یہ جائزہیں۔ یہ روایت شیخ البانی کے نزدیک ضعیف ہے، اس لیےجنبی آدمی کی بابت یہ کہنا صحیح نہیں کہ اس کی وجہ سےفرشتےنہیں آتے۔ تاہم بشرط صحت، اس کی توجیہ یہ ممکن ہےکہ جنبی شخص تساہل کا مظاہرہ کرتے ہوئےغسل نہ کرے اور نمازیں بھی ضائع کردے۔ توکسی گھرمیں ایسےجنبی کا وجود یقیناً ملائکہ رحمت کے آنے میں مانع ہو سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو، یا کتا ہو، یا جنبی ہو.“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) ibn AbuTalib (RA): The Prophet (ﷺ) said: Angels do not enter the house where there is a picture, or a dog, or a person who is sexually defiled.