Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Urinating While Standing)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
23.
سیدنا حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم کے کوڑے کے ایک ڈھیر پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ پھر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور (وضو کیا، اس وضو میں آپ ﷺ نے) اپنے موزوں پر مسح فرمایا۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ (ان کے شیخ) مسدد نے کہا کہ راوی حدیث سیدنا حذیفہ ؓ نے کہا کہ (اس موقع پر) میں آپ ﷺ سے دور ہٹنے لگا تو آپ ﷺ نے مجھے بلایا حتیٰ کہ میں (آپ ﷺ کے قریب آ گیا اور) آپ ﷺ کے پیچھے ایڑیوں کے پاس کھڑا ہو گیا۔
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) معلوم ہوا کہ ضرورت کے موقع پر کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے بشرطیکہ چھینٹے پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ چنانچہ اس حدیث کے پیش نظر حضرت عمر، حضرت علی ، ابن عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے لیکن سنت یہ ہے کہ آدمی بیٹھ کر پیشاب کرے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ’’جو شخص تمہیں یہ بیان کرے کہ نبی کریمﷺ کھڑے ہوکر پیشاب کیا کرتے تھے تو اس کی بات کی تصدیق نہ کرو کیونکہ آپﷺ تو ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیشاب کیا کرتے تھے۔‘‘ (جامع الترمذي، الطهارة، باب ما جاء في النهي عن البول قائما، حدیث: 12، وسنن النسائی، الطهارة، حدیث: 29) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلے میں سب سے زیادہ صحیح روایت یہی ہے اور پھر بیٹھ کر پیشاب کرنے میں پردہ پوشی بھی زیادہ ہے اور آدمی پیشاب کے چھینٹوں سے بھی زیادہ محفوظ رہتا ہے۔ آج کل ماڈرن قسم کے لوگ، جو مغرب کی نقالی میں حد سے بڑھ چکے ہیں، ہوٹلوں اور پارکوں میں کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہیں اور اس میں فخر محسوس کرتے ہیں، حالانکہ ہر معاملے میں غیروں کی نقالی کرنا سراسر حدیث رسول کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور انگریز کی اور غیرمسلموں کی نقالی سے بچائے۔ (2) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض حالات میں لوگوں کے قریب بھی پیشاب کیا جاسکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده على شرطهما؛ وقد أخرجاه، والزيادة على شرط البخاري؛ وهي عند مسلم) . إسناده: حدثنا حفص بن عمر ومسلم بن إبراهيم قالا: ثنا شعبة. (ح) ، وثنا مسدد: ثنا أبو عوانة- وهذا لفظ حفص- عن سليمان عن أبي وائل عن حذيفة. قال أبو داود عقبه: قال مسدد: قال: فذهبت... إلخ. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين، وأما الرواية الأخرى؛ فهي على شرط البخاري وحده؛ وإن كان مسلم قد أخرجها دون صاحبه من طريق أخرى عن
سليمان؛ وهو الأعمش. والحديث أخرجه الشيخان، وبقية الأربعة والدارمي، وأبو عوانة في صحيحه ، والبيهقي، وأحمد (5/382 و 402) من طرق عن الأعمش به؛ وليست عند ابن ماجه والدارمي الزياده، وكذا البخاري كما سبق.
وقد تابعه منصور عن أبي وائل بدونها أيضا: أخرجاه في الصحيحين ؛ وقد سبق لفظه في التعليق قريباً.
ورواه أبو عوانة أيضا في صحيحه (1/197) من طريق الطيالسي؛ وهو في مسنده (رقم 407) .
وللحديث طريق أخرى مختصراً دون قوله: ثمّ دعا... إلخ. أخرجه أحمد (5/394) عن نَهِيك بن- وفى الأصل: عن! وهو خطأ- عبد الله السلولي: ثنا حذيفة. وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير نهيك هذا، وقد ذكره
ابن حبان في الثقات ، وقد حكى في التعجيل أنه روى عنه يونس بن أبي إسحاق وغيره، ثمّ قال: قلت: ذكر ابن أبي حاتم عن أبيه أن أبا إسحاق السبيعي روى عنه . قلت: هذا الحديث من روايته عنه؛ فكأن الحافظ ذهل عنه فلم يستحضره عند الكتابة!
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم کے کوڑے کے ایک ڈھیر پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ پھر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور (وضو کیا، اس وضو میں آپ ﷺ نے) اپنے موزوں پر مسح فرمایا۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ (ان کے شیخ) مسدد نے کہا کہ راوی حدیث سیدنا حذیفہ ؓ نے کہا کہ (اس موقع پر) میں آپ ﷺ سے دور ہٹنے لگا تو آپ ﷺ نے مجھے بلایا حتیٰ کہ میں (آپ ﷺ کے قریب آ گیا اور) آپ ﷺ کے پیچھے ایڑیوں کے پاس کھڑا ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) معلوم ہوا کہ ضرورت کے موقع پر کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے بشرطیکہ چھینٹے پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ چنانچہ اس حدیث کے پیش نظر حضرت عمر، حضرت علی ، ابن عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے لیکن سنت یہ ہے کہ آدمی بیٹھ کر پیشاب کرے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ’’جو شخص تمہیں یہ بیان کرے کہ نبی کریمﷺ کھڑے ہوکر پیشاب کیا کرتے تھے تو اس کی بات کی تصدیق نہ کرو کیونکہ آپﷺ تو ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیشاب کیا کرتے تھے۔‘‘ (جامع الترمذي، الطهارة، باب ما جاء في النهي عن البول قائما، حدیث: 12، وسنن النسائی، الطهارة، حدیث: 29) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلے میں سب سے زیادہ صحیح روایت یہی ہے اور پھر بیٹھ کر پیشاب کرنے میں پردہ پوشی بھی زیادہ ہے اور آدمی پیشاب کے چھینٹوں سے بھی زیادہ محفوظ رہتا ہے۔ آج کل ماڈرن قسم کے لوگ، جو مغرب کی نقالی میں حد سے بڑھ چکے ہیں، ہوٹلوں اور پارکوں میں کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہیں اور اس میں فخر محسوس کرتے ہیں، حالانکہ ہر معاملے میں غیروں کی نقالی کرنا سراسر حدیث رسول کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور انگریز کی اور غیرمسلموں کی نقالی سے بچائے۔ (2) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض حالات میں لوگوں کے قریب بھی پیشاب کیا جاسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک قوم کے کوڑے خانہ (گھور) پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎ پھر پانی منگوایا (اور وضو کیا) اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مسدد کا بیان ہے کہ حذیفہ ؓ نے کہا: میں پیچھے ہٹنے چلا تو آپ ﷺ نے مجھے (قریب) بلایا (میں آیا) یہاں تک کہ میں آپ ﷺ کی ایڑیوں کے پاس (کھڑا) تھا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو یہ کام جواز کے بیان کے لئے کیا، یا وہ جگہ ایسی تھی جہاں بیٹھنا مناسب نہیں تھا، کیونکہ بیٹھنے میں وہاں موجود نجاست سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ملوث ہونے کا احتمال تھا، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے میں کوئی بیماری تھی جس کے سبب آپ ﷺ نے ایسا کیا، واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hudhaifah: The Apostle of Allaah ( sal Allaahu alayhi wa sallam ) came to a midden of some people and urinated while standing. He then asked for water and wiped his shoes. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Musaddad, a narrator, reported: I went far away from him. He then called me and I reached just near his heals.