Abu-Daud:
Fasting (Kitab Al-Siyam)
(Chapter: The Fasting Person Who Intentionally Vomits)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2381.
سیدنا ابودرداء ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قے کی اور روزہ توڑ ڈالا۔ (معدان کہتے ہیں کہ) پھر سیدنا ثوبان مولیٰ رسول اللہ ﷺ سے دمشق کی مسجد میں میری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے کہا: سیدنا ابولدرداء ؓ نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قے کی اور روزہ توڑ ڈالا تھا۔ کہا کہ انہوں نے صحیح کہا ہے اور میں نے ہی آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی انڈیلا تھا۔
تشریح:
عمدا قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضا لازم آتی ہے، بخلاف اس کے کہ ازخود قے آئے۔ خود بخود قے آنے سے نہ روزہ ٹوٹتا ہے، اور نہ قضا لازم آتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذا قال ابن منده، وصححه ابن الجارود وابن خزيمة وابن حبان، وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي !) . إسناده: حدثنا أبو معمر عبد الله بن عمرو: ثنا عبد الوارث: ثنا الحسين عن يحيى: حدثني عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي عن يَعِيشَ بن الوليد بن هشام أن أباه حدثه: حدثني معدان بن طلحة.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير يعيش بن الوليد، وهو ثقة. والحسين: هو ابن ذَكْوَانَ المعلِّم، وقد اختلف عليه في إسناده كما يأتي. ويحبي: هو ابن أبي كثير. والحديث أخرجه البيهقي (4/220) من طريق أخرى عن أبي معمر... به. وكذا الدارقطني (ص 58) ، والطحاوي. وتابعه عبد الصمد بن عبد الوارث: حدثني أبي... به: أخرجه الترمذي (87) ، والدارمي (2/14) ، والطحاوي في شرح المعاني (1/347- 348) ، وابن الجارود (8) ، والدارقطني أيضاً، وأحمد (6/443) من طرق عن عبد الصمد... به. وأخرجه ابن خزيمة (1956) ، وعنه ابن حبان (908) ، والحاكم (1/426) من طرق أخرى، منها: محمد بن المثنى أبو موسى عن عبد الصمد... به؛ إلا أنه لم يقل: عن أبيه، بل قال: أن يعيش بن الوليد حدثه أن معدان بن أبي طلحة حدثه... به. وقال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه؛ لخلاف بين أصحاب عبد الصمد فيه، قال بعضهم: عن يعيش بن الوليد عن أبيه عن معدان. وهذا وهم من قائله؛ فقد رواه حرب بن شداد وهشام الدَّسْتَوَائِي عن يحيى بن أبي كثير... على الاستقامة ! ثم أخرج هو، وابن خزيمة (1958) ، والدارقطني من طريقين عن حرب بن شداد عن يحيى بن أبي كثير عن عبد ا رحمن بن عمرو عن يعيش بن الوليد عن معدان بن أبي طلحة... به؛ إلا أن الدارقطني وقع عنده زيادة: عن أبيه.. فلا أدري أهي في روايته، أم خطأ من الناسخ أو الطابع؟ ثم أخرجه ابن خزيمة والحاكم من طريق عبد الرحمن بن عثمان أبي بَحْرٍ البَكْرَاوِي: ثنا هشام الدَّسْتَوائِي عن يحيى بن أبي كثير... به. دون الزيادة. وقال ابن خزيمة: فبرواية هشام وحرب عُلِمَ أن الصواب ما رواه أبو موسى- يعني: عن عبد الصمد-، وأن يعيش بن الوليد سمع من معدان، وليس بينهما أبوه !
قلت: لكن البكراوي ضعيف؛ إلا أنه يقويه رواية حرب بن شداد من الطريقين عنه. ويزداد قوة برواية عبد الرزاق في المصنف (525) ، وعنه أحمد (6/449) عن معمر عن يحيى بن أبي كثير... به؛ إلا أنه لم يذكر الأوزاعي في إسناده! والصواب إثباته، كما في الطرق المتقدمة، وبها يزول الاضطراب، ويصح الحديث. والحمد لله. وروى هذه القصةَ: عتبةُ بن السَّكَنِ الحمصي: ثنا الأوزاعي: حدثني عبادة ابن نُسَي وهُبَيْرَةُ بن عبد الرحمن سَمِعَا أبا أسماء يقول: ثنا ثوبان... فذكرها بنحوه؛ وزاد: فلما كان من الغد؛ سمعته يقول: هذا اليوم مكان إفطاري أمْسِ .
قلت: وهذا منكر جداً! عتبة هذا؛ قال الدارقطني: متروك الحديث . وقال البيهقي (7/243) - عقبه، وقد ساق له حديثاً آخر-: عتبة بن السكن منسوب إلى الوضع. وهذا باطل لا أصل له .
صوم یا صیام (مصدر )کے مغوی معنی امساک ،یعنی کسی چیز سے رکنے کی کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں یہ اللہ تعالی کی ایک عبادت ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالی کے حکم سے تمام مفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں ،مثلا کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت کرنا )سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک رکا رہتا ہے یہ ساری چیزیں اگرچہ حلال ہیں لیکن روزے کی حالت میں یہ چیزیں ممنوع ہیں اس لئے اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ تعالی کے حکم پر فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ،ان تمام چیزوں سے بچ کر رہنے کا نام روزہ ہے ۔
مقصد: روزہ رکھنے کا مقصد حصول تقویٰ ہے جیسا کہ (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)’’ تا کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘سے ثابت ہوتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ہمیشہ تیار رہنے اور منہیات سے باز رہنے کی یہ ایک عملی تربیت ہے-
اھمیت و فرضیت:روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے قرآن مجید میں ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیاہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا۔‘‘ حدیث میں ہے’’اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں :اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا‘رکوٰۃادا کرنا ‘رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘(صحيح البخارى .حديث&8 و صحيح مسلم حديث 16)سورۂ بقرہ میں آیت :183 سے :187 تک روزوں کی فرضیت اور دیگر مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔ رمضان المبارک کے روزوں کی بابت نبئ اکرمﷺ نے فرمایا: جس ن رمضان کے روزے رکھے ‘ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1901) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں‘جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ‘ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں ‘بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم‘الطہارۃ‘حدیث:233)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں آتا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری‘ الصوم‘حدیث:1899‘وبد ءالخلق‘ حدیث:3277)روزے کے اجر کی بابت نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے ہر عمل کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے لیکن روزے کے اجر و ثواب کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا کیونکہ روزہ دار نے اپنی ساری خواہشات اور کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑا ہے۔مزید آپ نے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904)فرض روزوں کے لیے رات طلوع فجر سے قبل روزے کی نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جس نے فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘(سنن ابی داود‘الصیام‘حدیث:2454)رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے ‘ رات کو تراویح(قیام اللیل) کا اہتمام کرتا ہے اور سحری وغیرہ کا انتظام بھی کرتا ہے اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبئ کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں الفاظ لکھے ہوتے ہیں(وَبِصَومِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)اس کی کوئی سند نہیں ہے‘ بالکل بے اصل ہے یہ دعا معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔روزے کا وقت طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے صبح صادق سے پہلے سحری کھالی جائے اور پھر سورج غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کھانا ضروری نہیں اور وہ رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں یہ دونوں باتیں ہی سنت رسول سے ثابت نہیں ہیں۔رسول اللہ کا فرمان ہے:’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔‘‘(صحیح مسلم‘ الصیام‘ حدیث:1096)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضرور کھانی چائیے چاہے ایک دو لقمے ہی کیوں نہ ہوں اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے یعنی بالکل آخر ی وقت میں کھایا کرتے تھے لہذا ہمیں بھی اس طریق نبوی کی اپنانا چاہیے یقینا ہمارے لیے اس میں بڑے فائدے فائدے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے روزے کو ان اقوال و اعمال سے بچائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ کیونکہ روزے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اطاعت اور بندگی کی جائے ‘ اس کی محرمات کی تعظیم بجا لائی جائے ‘نفس کے خلاف جہاد کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں اس نفس کی خواہش کی مخالفت کی جائے اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو حرام قرار دیا ہے ان پر صبر کا نفس کو عادی بنایا جائے کیونکہ روزے سے محض یہ مقصود نہیں ہے کہ کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو ترک کر دیا جائے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شور وغوغا کرے‘ اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904) اسی طرح آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص جھوٹی بات‘ اس کے مطابق عمل اور جہالت کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا تر ک کرے۔(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1903) مذکورہ بالا اور دیگر نصوص سے یہ معلوم ہوا کہ روزے دار پر واجب ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیا ہے کیونکہ اسی عمل ہی سے مغفرت ‘جہنم سے آزادی اور صیام و قیام کی قبولیت کی اُمید کی جا سکے گی۔(روزہ سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھیے کتاب ’’ رمضان المبارک ‘فضائل‘ فوائد و ثمرات ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف ‘ مطبوعہ دارالسلام)
سیدنا ابودرداء ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قے کی اور روزہ توڑ ڈالا۔ (معدان کہتے ہیں کہ) پھر سیدنا ثوبان مولیٰ رسول اللہ ﷺ سے دمشق کی مسجد میں میری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے کہا: سیدنا ابولدرداء ؓ نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قے کی اور روزہ توڑ ڈالا تھا۔ کہا کہ انہوں نے صحیح کہا ہے اور میں نے ہی آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی انڈیلا تھا۔
حدیث حاشیہ:
عمدا قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضا لازم آتی ہے، بخلاف اس کے کہ ازخود قے آئے۔ خود بخود قے آنے سے نہ روزہ ٹوٹتا ہے، اور نہ قضا لازم آتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معدان بن طلحہ کا بیان ہے کہ ابوالدرداء ؓ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قے ہوئی تو آپ نے روزہ توڑ ڈالا، اس کے بعد دمشق کی مسجد میں میری ملاقات ثوبان ؓ سے ہوئی تو میں نے کہا کہ ابوالدرداء نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قے ہو گئی تو آپ نے روزہ توڑ دیا اس پر ثوبان نے کہا: ابوالدرداء نے سچ کہا اور میں نے ہی (اس وقت) رسول اللہ ﷺ کے لیے وضو کا پانی ڈالا تھا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ma'dan b. Talhah: That Abu ad-Darda' narrated to him: The Messenger of Allah (ﷺ) vomited and broke his fast. Then I met Thawban, the client of the Messenger of Allah (ﷺ), in the mosque in Damascus, I said (to him): Abu al-Darda has told me that the Messenger of Allah (ﷺ) vomited and broke his fast. He said: He spoke the truth ; and I poured out water for his ablution (ﷺ).