Abu-Daud:
Fasting (Kitab Al-Siyam)
(Chapter: Regarding A Fasting Person Who Is Invited To A Walimah (Wedding Feast))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2460.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت ملے تو چاہیئے کہ قبول کر لے، اگر روزے سے نہ ہو تو کھانا کھا لے اور اگر روزہ رکھا ہوا تو (مجلس میں حاضر ہو اور صاحب طعام کے لیے) دعا کرے۔“ ہشام بن حسان نے وضاحت کی کہ اس حدیث میں ”صلاة“ کے معنی دعا کرنا ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو حفص بن غیاث نے بھی ہشام سے روایت کیا ہے۔
تشریح:
مسلمانوں کو موقع بموقع آپس میں دعوتوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، اس سے آپس کے تعلقات مضبوط ہوتے اور محبتیں بڑھتی ہیں۔ روزے دار بھی دعوت میں شریک ہو اور ان کے لیے دعا کرے۔ اگر روزہ نفلی ہو تو توڑنا جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه مسلم. وصححه الترمذي) . إسناده: حدثنا عبد الله بن سعيد: ثنا الوليد عن هشام عن ابن سيرين عن أبي هريرة. قال أبو داود: رواه حفص بن غياث أيضاً ،
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه مسلم كما يأتي. وهشام: هو ابن حسان. والوليد: هو ابن مسلم، وقد توبع كما أشار إليه المؤلف ويأتي. والحديث أخرجه أحمد (2/279 و 507) ، والبيهقي (4/263) من طرق أخرى عن هشام... به. وقال مسلم (4/153) : حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة: حدثنا حفص بن غياث عن هشام... به. وتابعه أيوب عن محمد بن سيرين... به نحوه. أخرجه الترمذي (780) - وقال: حسن صحيح -، وأحمد (2/489) .
صوم یا صیام (مصدر )کے مغوی معنی امساک ،یعنی کسی چیز سے رکنے کی کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں یہ اللہ تعالی کی ایک عبادت ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالی کے حکم سے تمام مفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں ،مثلا کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت کرنا )سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک رکا رہتا ہے یہ ساری چیزیں اگرچہ حلال ہیں لیکن روزے کی حالت میں یہ چیزیں ممنوع ہیں اس لئے اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ تعالی کے حکم پر فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ،ان تمام چیزوں سے بچ کر رہنے کا نام روزہ ہے ۔
مقصد: روزہ رکھنے کا مقصد حصول تقویٰ ہے جیسا کہ (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)’’ تا کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘سے ثابت ہوتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ہمیشہ تیار رہنے اور منہیات سے باز رہنے کی یہ ایک عملی تربیت ہے-
اھمیت و فرضیت:روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے قرآن مجید میں ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیاہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا۔‘‘ حدیث میں ہے’’اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں :اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا‘رکوٰۃادا کرنا ‘رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘(صحيح البخارى .حديث&8 و صحيح مسلم حديث 16)سورۂ بقرہ میں آیت :183 سے :187 تک روزوں کی فرضیت اور دیگر مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔ رمضان المبارک کے روزوں کی بابت نبئ اکرمﷺ نے فرمایا: جس ن رمضان کے روزے رکھے ‘ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1901) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں‘جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ‘ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں ‘بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم‘الطہارۃ‘حدیث:233)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں آتا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری‘ الصوم‘حدیث:1899‘وبد ءالخلق‘ حدیث:3277)روزے کے اجر کی بابت نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے ہر عمل کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے لیکن روزے کے اجر و ثواب کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا کیونکہ روزہ دار نے اپنی ساری خواہشات اور کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑا ہے۔مزید آپ نے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904)فرض روزوں کے لیے رات طلوع فجر سے قبل روزے کی نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جس نے فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘(سنن ابی داود‘الصیام‘حدیث:2454)رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے ‘ رات کو تراویح(قیام اللیل) کا اہتمام کرتا ہے اور سحری وغیرہ کا انتظام بھی کرتا ہے اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبئ کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں الفاظ لکھے ہوتے ہیں(وَبِصَومِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)اس کی کوئی سند نہیں ہے‘ بالکل بے اصل ہے یہ دعا معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔روزے کا وقت طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے صبح صادق سے پہلے سحری کھالی جائے اور پھر سورج غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کھانا ضروری نہیں اور وہ رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں یہ دونوں باتیں ہی سنت رسول سے ثابت نہیں ہیں۔رسول اللہ کا فرمان ہے:’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔‘‘(صحیح مسلم‘ الصیام‘ حدیث:1096)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضرور کھانی چائیے چاہے ایک دو لقمے ہی کیوں نہ ہوں اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے یعنی بالکل آخر ی وقت میں کھایا کرتے تھے لہذا ہمیں بھی اس طریق نبوی کی اپنانا چاہیے یقینا ہمارے لیے اس میں بڑے فائدے فائدے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے روزے کو ان اقوال و اعمال سے بچائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ کیونکہ روزے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اطاعت اور بندگی کی جائے ‘ اس کی محرمات کی تعظیم بجا لائی جائے ‘نفس کے خلاف جہاد کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں اس نفس کی خواہش کی مخالفت کی جائے اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو حرام قرار دیا ہے ان پر صبر کا نفس کو عادی بنایا جائے کیونکہ روزے سے محض یہ مقصود نہیں ہے کہ کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو ترک کر دیا جائے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شور وغوغا کرے‘ اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904) اسی طرح آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص جھوٹی بات‘ اس کے مطابق عمل اور جہالت کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا تر ک کرے۔(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1903) مذکورہ بالا اور دیگر نصوص سے یہ معلوم ہوا کہ روزے دار پر واجب ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیا ہے کیونکہ اسی عمل ہی سے مغفرت ‘جہنم سے آزادی اور صیام و قیام کی قبولیت کی اُمید کی جا سکے گی۔(روزہ سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھیے کتاب ’’ رمضان المبارک ‘فضائل‘ فوائد و ثمرات ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف ‘ مطبوعہ دارالسلام)
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت ملے تو چاہیئے کہ قبول کر لے، اگر روزے سے نہ ہو تو کھانا کھا لے اور اگر روزہ رکھا ہوا تو (مجلس میں حاضر ہو اور صاحب طعام کے لیے) دعا کرے۔“ ہشام بن حسان نے وضاحت کی کہ اس حدیث میں ”صلاة“ کے معنی دعا کرنا ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو حفص بن غیاث نے بھی ہشام سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مسلمانوں کو موقع بموقع آپس میں دعوتوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، اس سے آپس کے تعلقات مضبوط ہوتے اور محبتیں بڑھتی ہیں۔ روزے دار بھی دعوت میں شریک ہو اور ان کے لیے دعا کرے۔ اگر روزہ نفلی ہو تو توڑنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے قبول کرنا چاہیئے، اگر روزے سے نہ ہو تو کھا لے، اور اگر روزے سے ہو تو اس کے حق میں دعا کر دے۔“ ہشام کہتے ہیں: «صلاۃ» سے مراد دعا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying: When one of you receives an invitation (for a meal), he should accept it. If he isn to fasting, he should eat, and if he is fasten, he should pray. Hisham said: The word salat means to pray (for him to Allah). Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This tradition has also been narrated by Hafs b. Ghiyath from Hisham.