Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Regarding The Ghusl For Janabah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
249.
سیدنا علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جس نے جنابت میں ایک بال کی جگہ بھی چھوڑ دی اور اسے نہ دھویا تو اس کے ساتھ آگ میں ایسے اور ایسے کیا جائے گا (یعنی عذاب دیا جائے گا) ۔“ سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں: میں اسی وجہ سے اپنے سر کا دشمن بن گیا ہوں۔ میں اسی وجہ سے اپنے سر کا دشمن بن گیا ہوں۔ میں اسی وجہ سے اپنے سر کا دشمن بن گیا ہوں۔ آپ اپنے بال منڈائے رکھتے تھے۔
تشریح:
مذکورہ روایات کے مجموعے سے واضح ہے کہ انسان غسل جنابت میں اہتمام واحتیاط سے اپنے پورے جسم کے تمام حصوں تک پانی پہنچائے۔ کسی بال برابرجگہ کا خشک رہ جانا بھی باعث عذاب ہےالبتہ عورتوں کواپنی مینڈھیاں نہ کھولنےکی شرعاً رعایت ہے، جیسے کہ آگےآرہا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لأن حماداً- وهو ابن سلمة- قد روى عن عطاء بن السائب في حالة اختلاطه؛ ولذلك قال النووي: إنه حديث ضعيف ) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: نا حماد. قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ لكن عطاء بن السائب كان قد اختلط، وحماد- وهو ابن سلمة- قد سمع منه في الاختلاط، كما سمع منه قبل ذلك، وليس لدينا من الأدلة ما يرجح أنه سمع هذا الحديث منه قبل اختلاطه، واحتمال سماعه له منه في الاختلاط قائم؛ فلذلك أوردناه في هذا الكتاب، حتى نقف على الدليل المشار إليه، أو تجد له متابعاً أو شاهدا. قال ابن معين: عطاء بن السائب اختلط، وما سمع منه جرير وذووه ليس من صحيح حديثه، وقد سمع منه أبو عوانة في الصحيح والاختلاط جميعاً، ولا يحتج بحديثه . وقال في رواية أخرى: وجميع من سمع من عطاء سمع منه في الاختلاط؛ إلا شعبة والثوري . قلت: وقوله: وجميع يشمل أبا عوانة، كما يشمل حماد بن سلمة- وهو بصري-. وقد قال أبو حاتم: كان محله الصدق قبل أن يختلط، صالح مستقيم الحديث، ثم بأخرة تغير حفظه، في حفظه تخاليط كثيرة، وقديم السماع من عطاء: سفيان وشعبة، وفي حديث البصريين عنه تخاليط كثيرة؛ لأنه قدم عليهم في آخر عمره، وما روى عنه ابن فضيل ففيه غلط واضطراب، رفع أشياء كان يرويها عن التابعين ورفعها إلى الصحابة . وقال الدارقطني: دخل عطاء البصرة مرتين؛ فسماع أيوب وحماد بن سلمة في الرحلة الأولى صحيح . وأصرح من ذلك كله قول العقيلي: وسماع حماد بن سلمة بعد الاختلاط . قال الحافظ: كذا نقله عنه ابن القطان، ثم وقفت على ترجمته في العقيلي ... . قلت: ثم ذكر الحافظ عنه ما نقله عن علي بن المديني، ولكن المؤسف أنه سقط من قلم الناسخ الكلام المقصود هنا؛ وهو المتعلق ببيان حال رواية حماد بن سلمة عن عطاء، وترك مكانه بياضاً. لكن المقصود واضح من نقل ابن القطان، ومما علقه الحافظ على نقله هو بقوله: فاستفدنا من هذه القصة: أن رواية وهيب وحماد وأبي عوانة عنه في جملة ما يدخل في الاختلاط . ثم ذكر بعض الكلمات عن بعض الأئمة، فيها أن حماداً سمع منه قبل الاختلاط، ثم قال: فيحصل لنا من مجموع كلامهم: أن سفيان الثوري وشّعبة وزائدة وحماد بن زيد وأيوب عنه صحيح، ومن عداهم يتوقف فيه؛ إلا حماد بن سلمة فاختلف قولهم، والظاهر أنه سمع منه مرتين: مرة مع أيوب- كما يومي إليه كلام الدارقطني-، ومرة بعد ذلك لما دخل إليهم البصرة، وسمع منه مع جرير وذويه. واللّه أعلم . ق ت: وهذا هو تحرير القول وتحقيقه في رواية حماد عن عطاء. وبناءً على ذلك فقول الحافظ في التلخيص (2/169) : إسناده صحيح؛ فإنه من رواية عطاء بن السائب، وقد سمع منه حماد بن سلمة قبل الاختلاط، لكن قيل: إن الصواب وقفه على علي ! فغير صحيح أنه صحيح، وكأنه ذهل- حين كتب هذا- عن التحقيق الذي نقلناه آنفاً عنه. وقال الصنعاني في سبل السلام (1/127) - مستدركاً على الحافظ تصحيحه-: ولكن قال ابن كثير في الإرشاد : إن حديث علي هذا من رواية عطاء بن السائب، وهو سيئ الحفظ. وقال النووي: إنه حديث ضعيف. قلت: وسبب اختلاف الأئمة في تصحيحه وتضعيفه: أن عطاء بن السائب اختلط فما آخر عمره؛ فمن روى عنه قبل اختلاطه فروايته عنه صحيحة، ومن روى عنه بعد اختلاطه فروايته عنه ضعيفة. وحديث علي هذا؛ اختلفوا هل رواه قبل الاختلاط أو بعده، فلذا اختلفوا في تصحيحه وتضعيفه! والحق: الوقف عن تصحيحه وتضعيفه، حتى يتبين الحال فيه ! قلت: لكن التوقف فيه من الوجهة العملية غير ممكن! فطالما أنه لم تثبت صحته؛ فلا يجوز نسبته إليه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جزماً، كما لا يجوز الاحتجاج به على حكم، فهو في حكم الحديث الضعيف الظاهر الضعف. وهذا كحديث ال جل المجهول الذي لم يُسم- كالحديث الآتي بعد هذا، والذي يليه- يحكم عليه بالضعف؛ لجهلنا بحاله ثقةً وحفظاً، مع احتمال أنه إذا سمي في رواية أخرى؛ ظهر أنه ثقة- كما في الحديث (رقم 88) من الكتاب الآخر-. ثم إن ما حكاه عن النووي أنه ضعف الحديث؛ إنما هو آخر قوليه في المجموع (2/184) . وإلا؛ فقد قال فيما سبق منه (1/363) : إنه حديث حسن، رواه أبو داود وغيره بإسناد حسن ! والحديث أخرجه الطيالسي (رقم 175) : حدثنا حماد بن سلمة... به. وكذا أخرجه عن حماد: الدارمي وابن ماجه والبيهقي وأحمد (2 رقم 727 و 794) ، وابنه عبد الله (رقم 1121) ، وأبو نعيم في حلية الأولياء (4/200) . وأخرجه الطبراني في الصغير (ص 206) من طريق عبد العزيز بن أبي رواد عن عطاء، وقال: تفرد به عنه ابنه عبد المجيد. والمشهور: حديث حماد بن سلمة عن عطاء .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جس نے جنابت میں ایک بال کی جگہ بھی چھوڑ دی اور اسے نہ دھویا تو اس کے ساتھ آگ میں ایسے اور ایسے کیا جائے گا (یعنی عذاب دیا جائے گا) ۔“ سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں: میں اسی وجہ سے اپنے سر کا دشمن بن گیا ہوں۔ میں اسی وجہ سے اپنے سر کا دشمن بن گیا ہوں۔ میں اسی وجہ سے اپنے سر کا دشمن بن گیا ہوں۔ آپ اپنے بال منڈائے رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ روایات کے مجموعے سے واضح ہے کہ انسان غسل جنابت میں اہتمام واحتیاط سے اپنے پورے جسم کے تمام حصوں تک پانی پہنچائے۔ کسی بال برابرجگہ کا خشک رہ جانا بھی باعث عذاب ہےالبتہ عورتوں کواپنی مینڈھیاں نہ کھولنےکی شرعاً رعایت ہے، جیسے کہ آگےآرہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے غسل جنابت میں ایک بال برابر جگہ دھوئے بغیر چھوڑ دی، تو اسے آگ کا ایسا ایسا عذاب ہو گا۔“ علی ؓ کہتے ہیں: اسی وجہ سے میں نے اپنے سر (کے بالوں) سے دشمنی کر رکھی ہے، اس جملے کو انہوں نے تین مرتبہ کہا، وہ اپنے بال کاٹ ڈالتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) ibn Abu Talib: The Apostle of Allah (ﷺ) said: If anyone who is sexual defiled leaves a spot equal to the breadth of a hair without washing, such and such an amount of Hell-fire will have to be suffered for it. 'Ali (RA) said: On that account I treated my head (hair) as an enemy, meaning I cut my hair. He used to cut the hair (of his head).