باب: کسی ( معقول ) عذر کے باعث جہاد کے لیے نہ جانا درست ہے
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: The Allowance To Stay Behing Due To An Excuse)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2507.
سیدنا زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ آپ ﷺ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (وحی کا نزول شروع ہو گیا) اور رسول اللہ ﷺ کی ران میری ران پر آ گئی، مجھے آپ ﷺ کی ران سے جو بوجھ محسوس ہوا کسی اور چیز سے محسوس نہیں ہوا۔ جب آپ ﷺ سے یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ” لکھو۔“ چنانچہ میں نے شانے کی ہڈی پر لکھا: «لا يستوي القاعدون ***» (آخر آیت تک) ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومنین اور بیٹھ رہنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ ۔ ۔“ ابن ام مکتوم جو نابینا صحابی تھے، انہوں نے جب مجاہدین کی یہ فضیلت سنی تو کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! مومنین میں سے ایسے شخص کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو جہاد کی استطاعت نہ رکھتا ہو؟ انہوں نے جب اپنی بات پوری کی تو رسول اللہ ﷺ کو سکینت نے ڈھانپ لیا اور آپ کی ران میری ران پر آ گئی، اور دوسری بار بھی میں نے اسی طرح کا بوجھ محسوس کیا جو پہلے محسوس کیا تھا۔ پھر جب آپ سے یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”اے زید! پڑھو۔“ میں نے پڑھا: «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «غير أولي الضرر» ”سوائے ان کے جنہیں کوئی عذر ہو۔“ اور باقی آیت اسی طرح رہی۔ سیدنا زید ؓ فرماتے ہیں کہ «غير أولي الضرر» کے لفظ اللہ نے علیحدہ سے نازل فرمائے اور میں نے ان کو ان کی جگہ پر لکھ دیا۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! گویا میں شانے کی ہڈی کے اس درز کو دیکھ رہا ہوں جہاں میں نے اس کو ملایا تھا۔
تشریح:
1۔ مریض، نابینا، اپاہج، یا دیگر شرعی عذر کی بنا ء پر اگر کوئی جہاد سے پیچھے رہ جائے۔ تو مباح ہے، لیکن جب نفیر عام کا حکم ہو تو بلا عذر پیچھے رہنا کسی طرح روا نہیں۔ 2۔ نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر انتہائی بوجھ پڑتا تھا۔ حتیٰ کے سخت سردی میں بھی آپﷺ کو پسینہ آجاتا تھا۔ اور اگر آپ اونٹنی پر ہوتے تو وہ بھی ٹک کرکھڑی ہوجاتی تھی۔ اور چل نہ سکتی تھی۔ 3۔ قرآن مجید جس قدر اترتا تھا نبی کریم ﷺ اس کی کتابت کروا دیا کرتے تھے۔ البتہ ابتداء میں احادیث کے لکھنے کی عام اجازت نہ تھی۔ سوائے چند ایک صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے زیادہ وثائق جو آپ نے بالخصوص لکھوائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وكذلك قال الترمذي. وأخرجه البخاري وابن الجارود في المنتقى ، ورواه الشيخان عن البراء مختصراً. وصححه الترمذي أيضاً) . إسناده: حدثنا سعيد بن منصور: ثنا عبد الرحمن بن أبي الزناد عن أبيه عن خارجة بن زيد عن زيد بن ثابت.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير عبد الرحمن بن أبي الزناد، فهو من رجال مسلم وحده، وفي حفظه ضعف؛ لكنه قد توبع، فحديثه صحيح. والحديث أخرجه أحمد (5/190- 191 و 191) ، والبيهقي من طرق أخرى عن ابن أبي الزناد... به. وللحديث طرق أخرى، وشاهد: الأولى: عن سهل بن سعد الساعدي عن مروان بن الحكم أن زيد بن ثابت أخبره به... نحوه: أخرجه البخاري في (الجهاد- 31) ، وفي التفسير ، والترمذي (3036) ، والنسائي (2/54) ، وابن الجارود (1034) ، والبيهقي وأحمد (5/184) . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . الثانية: عن الزهري عن قَبِيصَةَ بن ذُؤَيْبٍ عن زيد بن ثابت... به نحوه: أخرجه أحمد (5/184) ، وعلقه الترمذي. الثالثة: علَقه مسلم (6/43) عن سعد بن إبراهيم عن أبيه عن رجل عن زيد ابن ثابت. وأما الشاهد؛ فأخرجه الشيخان والنسائي وأبو عوانة (5/73- 74) ، والبيهقي وأحمد (4/282 و 284) ، وصححه الترمذي (3034) .
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ آپ ﷺ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (وحی کا نزول شروع ہو گیا) اور رسول اللہ ﷺ کی ران میری ران پر آ گئی، مجھے آپ ﷺ کی ران سے جو بوجھ محسوس ہوا کسی اور چیز سے محسوس نہیں ہوا۔ جب آپ ﷺ سے یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ” لکھو۔“ چنانچہ میں نے شانے کی ہڈی پر لکھا: «لا يستوي القاعدون ***» (آخر آیت تک) ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومنین اور بیٹھ رہنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ ۔ ۔“ ابن ام مکتوم جو نابینا صحابی تھے، انہوں نے جب مجاہدین کی یہ فضیلت سنی تو کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! مومنین میں سے ایسے شخص کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو جہاد کی استطاعت نہ رکھتا ہو؟ انہوں نے جب اپنی بات پوری کی تو رسول اللہ ﷺ کو سکینت نے ڈھانپ لیا اور آپ کی ران میری ران پر آ گئی، اور دوسری بار بھی میں نے اسی طرح کا بوجھ محسوس کیا جو پہلے محسوس کیا تھا۔ پھر جب آپ سے یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”اے زید! پڑھو۔“ میں نے پڑھا: «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «غير أولي الضرر» ”سوائے ان کے جنہیں کوئی عذر ہو۔“ اور باقی آیت اسی طرح رہی۔ سیدنا زید ؓ فرماتے ہیں کہ «غير أولي الضرر» کے لفظ اللہ نے علیحدہ سے نازل فرمائے اور میں نے ان کو ان کی جگہ پر لکھ دیا۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! گویا میں شانے کی ہڈی کے اس درز کو دیکھ رہا ہوں جہاں میں نے اس کو ملایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مریض، نابینا، اپاہج، یا دیگر شرعی عذر کی بنا ء پر اگر کوئی جہاد سے پیچھے رہ جائے۔ تو مباح ہے، لیکن جب نفیر عام کا حکم ہو تو بلا عذر پیچھے رہنا کسی طرح روا نہیں۔ 2۔ نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر انتہائی بوجھ پڑتا تھا۔ حتیٰ کے سخت سردی میں بھی آپﷺ کو پسینہ آجاتا تھا۔ اور اگر آپ اونٹنی پر ہوتے تو وہ بھی ٹک کرکھڑی ہوجاتی تھی۔ اور چل نہ سکتی تھی۔ 3۔ قرآن مجید جس قدر اترتا تھا نبی کریم ﷺ اس کی کتابت کروا دیا کرتے تھے۔ البتہ ابتداء میں احادیث کے لکھنے کی عام اجازت نہ تھی۔ سوائے چند ایک صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے زیادہ وثائق جو آپ نے بالخصوص لکھوائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں تھا تو آپ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (یعنی وحی اترنے لگی) (اسی دوران) رسول اللہ ﷺ کی ران میری ران پر پڑ گئی تو کوئی بھی چیز مجھے آپ کی ران سے زیادہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی، پھر آپ ﷺ سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”لکھو۔“ میں نے شانہ (کی ایک ہڈی) پر {لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ...} ”اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔“ (سورۃ النساء: ۹۵) آخر آیت تک لکھ لیا، عبداللہ بن ام مکتوم ؓ (ایک نابینا شخص تھے) نے جب مجاہدین کی فضیلت سنی تو کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! مومنوں میں سے جو جہاد کی طاقت نہیں رکھتا اس کا کیا حال ہے؟ جب انہوں نے اپنی بات پوری کر لی تو رسول اللہ ﷺ کو پھر سکینت نے ڈھانپ لیا (وحی اترنے لگی)، آپ ﷺ کی ران میری ران پر پڑی تو میں نے اس کا بھاری پن پھر دوسری بار محسوس کیا جس طرح پہلی بار محسوس کیا تھا، آپ ﷺ سے وحی کی جب کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”زید! پڑھو۔“ تو میں نے «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» پوری آیت پڑھی، تو رسول اللہ ﷺ نے: «غير أولي الضرر» کا اضافہ فرمایا، زید کہتے ہیں: تو «غير أولي الضرر» کو اللہ نے الگ سے نازل کیا، میں نے اس کو اس کے ساتھ شامل کر دیا، اللہ کی قسم! گویا میں شانہ کے دراز کو دیکھ رہا ہوں جہاں میں نے اسے شامل کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Zaid bin Thabit said “I was beside the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) when the divinely-inspired calmness overtook him and the thigh of the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) fell on my thigh. I did not find any weightier than the thigh of the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). He then regained his composure and said “Write down. I wrote on a shoulder. Not equal are thise believers who sit (at home), other than those who have a (disabling) hurt, and those who strive in the way of Allaah. When Ibn Umm Makhtum who was blind heard the excellence of the warriors. He stood up and said “Apostle of Allah (ﷺ) how is it for those believers who are unable to fight (in the path of Allah)? When he finished his question his divinely-inspired calmness overtook him, and his thigh fell on my thigh and I found its weight the second time as I found the first time”. When the Apostle of Allah (ﷺ) regained his composure, he said “Apostle of Allah (ﷺ) said “Other than those who have a (disabling hurt). Zaid said “Allah, the exalted, revealed it alone and I appended it.” By Him in Whose hands is my life, I am seeing, as it were the place where I put it (i.e., the verse) at the crack in the shoulder”.