باب: جو شخص اسلام لائے اور اسی وقت اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جائے
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: A Person Who Accepts Islam, And Is Killed In The Same Spot, In The Cause Of Allah, The Most High)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2537.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن اقیش نے لوگوں سے اسلام سے پہلے کا سود لینا تھا، تو وہ اس کی وصول یابی تک اسلام سے دور رہا۔ آخر احد کے دن آیا اور پوچھا کہ میرے چچا زاد کہاں ہیں لوگوں نے کہا: احد میں ہیں، پھر پوچھا کہ فلاں کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: احد میں ہے۔ پھر پوچھا کہ فلاں کہا ہے؟ انہوں نے کہا: احد میں ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے ہتھیار پہنے، گھوڑے پر سوار ہوا اور ان لوگوں کی جانب چلا گیا۔ مسلمانوں نے جب اس کو دیکھا، تو کہا: اے عمرو! ہم سے دور رہو۔ اس نے کہا۔ یقین کرو کہ میں ایمان لا چکا ہوں چنانچہ قتال کرنے لگا حتیٰ کہ زخمی ہو گیا۔ اسے اسی حالت میں اٹھا کر اس کے اہل میں لایا گیا پس سعد بن معاذ ؓ اس کے پاس آئے اور اس کی بہن سے کہا اس سے پوچھو (کہ اس نے جنگ میں حصہ کیوں لیا ہے) اپنی قوم کی حمیت و حمایت میں، یا ان کے لیے غصہ کی بنا پر، یا اللہ کے لیے غصے کی وجہ سے؟ تو اس نے کہا: بلکہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے غصے کی وجہ سے (اس جنگ میں شریک ہوا ہوں) چنانچہ فوت ہو گیا اور جنت میں داخل ہوا اور اس نے اللہ کے لیے ایک بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔
تشریح:
1۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حمیت اور حمایت میں اپنی جان وار دینا اور اسی کےلئے اپنی محبت اور غصے کے جذبات کا اظہار کرنا ایمان کامل کی علامت اور اللہ کے ہاں نجات کی ضمانت ہے۔ 2۔ نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ مگر عمرو بن اقیش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے سیکھنے اور ادا کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تو اس لئے معذور سمجھے گئے۔ 3۔ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ اسلام ایک عملی اور باضابطہ دین ہے۔ اس میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت ومعصیت کا کوئی تصور نہیں اور نہ حرام کی گنجائش ہے۔ اسی وجہ سے حضرت عمر و نے اپنے اسلام کو موخر کیا۔ یہ ان کی سعادت تھی کہ اللہ عزوجل نے ان کو مہلت دی۔ اور وہ اسلام اور پھر شہادت سے بہرہ ور ہوگئے۔ 4۔ یہ واقعہ کسی شخص کو اپنا اسلام یا گنا ہ سے توبہ کو موخر کرنے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ نہ معلوم مطلب پورا ہونے تک زندگی کی مہلت بھی ملے گی یا نہیں۔ یا کہیں نیت ہی نہ بدل جائے۔ یا حالات سازگار نہ رہیں۔ اور پھر اسلام یا توبہ سے محروم رہ گیا تو ہمیشہ کی محرومی کا سامنا ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وصححه الحاكم على شرط مسلم! ووافقه الذهبي !) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: حدثنا حماد: أخبرنا محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال مسلم؛ إلا أنه إنما أخرج لمحمد ابن عمرو مقروناً. والحديث أخرجه الحاكم (2/113 و 3/28) ، وعنه البيهقي (9/167) من طريق أخرى عن موسى بن إسماعيل... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي!
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن اقیش نے لوگوں سے اسلام سے پہلے کا سود لینا تھا، تو وہ اس کی وصول یابی تک اسلام سے دور رہا۔ آخر احد کے دن آیا اور پوچھا کہ میرے چچا زاد کہاں ہیں لوگوں نے کہا: احد میں ہیں، پھر پوچھا کہ فلاں کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: احد میں ہے۔ پھر پوچھا کہ فلاں کہا ہے؟ انہوں نے کہا: احد میں ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے ہتھیار پہنے، گھوڑے پر سوار ہوا اور ان لوگوں کی جانب چلا گیا۔ مسلمانوں نے جب اس کو دیکھا، تو کہا: اے عمرو! ہم سے دور رہو۔ اس نے کہا۔ یقین کرو کہ میں ایمان لا چکا ہوں چنانچہ قتال کرنے لگا حتیٰ کہ زخمی ہو گیا۔ اسے اسی حالت میں اٹھا کر اس کے اہل میں لایا گیا پس سعد بن معاذ ؓ اس کے پاس آئے اور اس کی بہن سے کہا اس سے پوچھو (کہ اس نے جنگ میں حصہ کیوں لیا ہے) اپنی قوم کی حمیت و حمایت میں، یا ان کے لیے غصہ کی بنا پر، یا اللہ کے لیے غصے کی وجہ سے؟ تو اس نے کہا: بلکہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے غصے کی وجہ سے (اس جنگ میں شریک ہوا ہوں) چنانچہ فوت ہو گیا اور جنت میں داخل ہوا اور اس نے اللہ کے لیے ایک بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حمیت اور حمایت میں اپنی جان وار دینا اور اسی کےلئے اپنی محبت اور غصے کے جذبات کا اظہار کرنا ایمان کامل کی علامت اور اللہ کے ہاں نجات کی ضمانت ہے۔ 2۔ نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ مگر عمرو بن اقیش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے سیکھنے اور ادا کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تو اس لئے معذور سمجھے گئے۔ 3۔ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ اسلام ایک عملی اور باضابطہ دین ہے۔ اس میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت ومعصیت کا کوئی تصور نہیں اور نہ حرام کی گنجائش ہے۔ اسی وجہ سے حضرت عمر و نے اپنے اسلام کو موخر کیا۔ یہ ان کی سعادت تھی کہ اللہ عزوجل نے ان کو مہلت دی۔ اور وہ اسلام اور پھر شہادت سے بہرہ ور ہوگئے۔ 4۔ یہ واقعہ کسی شخص کو اپنا اسلام یا گنا ہ سے توبہ کو موخر کرنے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ نہ معلوم مطلب پورا ہونے تک زندگی کی مہلت بھی ملے گی یا نہیں۔ یا کہیں نیت ہی نہ بدل جائے۔ یا حالات سازگار نہ رہیں۔ اور پھر اسلام یا توبہ سے محروم رہ گیا تو ہمیشہ کی محرومی کا سامنا ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ عمرو بن اقیش ؓ کا جاہلیت میں کچھ سود (وصول کرنا) رہ گیا تھا انہوں نے اسے بغیر وصول کئے اسلام قبول کرنا اچھا نہ سمجھا، چنانچہ (جب وصول کر چکے تو) وہ احد کے دن آئے اور پوچھا: میرے چچازاد بھائی کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا: احد میں ہیں، کہا: فلاں کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا: احد میں، کہا: فلاں کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا: احد میں، پھر انہوں نے اپنی زرہ پہنی اور گھوڑے پر سوار ہوئے، پھر ان کی جانب چلے، جب مسلمانوں نے انہیں دیکھا تو کہا: عمرو ہم سے دور رہو، انہوں نے کہا: میں ایمان لا چکا ہوں، پھر وہ لڑے یہاں تک کہ زخمی ہو گئے اور اپنے خاندان میں زخم خوردہ اٹھا کر لائے گئے، ان کے پاس سعد بن معاذ ؓ آئے اور ان کی بہن سے کہا: اپنے بھائی سے پوچھو: اپنی قوم کی غیرت یا ان کی خاطر غصہ سے لڑے یا اللہ کے واسطہ غضب ناک ہو کر، انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کے واسطہ غضب ناک ہو کر لڑا، پھر ان کا انتقال ہو گیا اور وہ جنت میں داخل ہو گئے، حالانکہ انہوں نے اللہ کے لیے ایک نماز بھی نہیں پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah (RA): Amr ibn Uqaysh had given usurious loans in pre-Islamic period; so he disliked to embrace Islam until he took them. He came on the day of Uhud and asked: Where are my cousins? They (the people) replied: At Uhud. He asked: Where is so-and-so? They said: At Uhud. He asked: Where is so-and-so? They said: At Uhud. He then put on his coat of mail and rode his horse; he then proceeded towards them. When the Muslims saw him, they said: Keep away, Amir. He said: I have become a believer. He fought until he was wounded. He was then taken to his family wounded. Sa'd ibn Mu'adh came to his sister: Ask him (whether he fought) out of partisanship, out of anger for them, or out of anger for Allah. He said: Out of anger of Allah and His Apostle. He then died and entered Paradise. He did not offer any prayer for Allah.