Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: What A Man Should Say When Setting Out On A Journey)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2599.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے جناب علی الازدی کو سفر کے آداب میں یہ سکھایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر کی غرض سے اپنے اونٹ پر بیٹھ جاتے تو تین دفعہ کہتے «الله أكبر» پھر کہتے: «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، اللَّهُمَّ اطْوِ لَنَا الْبُعْدَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، وَالْمَالِ» ” پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے تابع کیا ، ہم ( ازخود ) اس کو اپنا تابع نہ بنا سکتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف ہی لوٹ جانے والے ہیں ۔ اے اﷲ ! میں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور تقوی کا سوال کرتا ہوں اور ایسے عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرا پسندیدہ ہو ، اے اﷲ ! ہمارے لیے ہمارا یہ سفر آسان فر دے اور مسافت کو ہمارے لیے لپیٹ دے ، اے اﷲ ! سفر میں تو ہی رفیق اور اہل اور مال میں خلیفہ ہے ۔ “ اور جب واپس تشریف لاتے تو یہ کلمات پڑھتے اور ان میں یہ اضافہ کرتے: «آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» ”ہم واپس آنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد کرنے والے ہیں۔“ نبی کریم ﷺ اور آپ کے لشکری جب کسی گھاٹی پر چڑھتے تو «الله أكبر» اور اگر کسی پستی میں اترتے تو «سبحان الله» کہتے اور نماز بھی اسی قاعدے پر ہے (کہ اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہی جاتی ہے)۔
تشریح:
1۔ توحید یہی ہے کہ انسان کسی بھی موقع پر اپنے رب تعالیٰ کو بھولنے نہ پائے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت اسی میں ہے۔ کہ ہر ہر عمل میں آپ ﷺ کی اقتداء کی جائے۔ 2۔ حدیث کا جملہ (فوضعت الصلوة علیٰ ذلك) اور نماز بھی اسی قاعدے پر ہے۔ ضعیف ہے۔ (علامہ البانی)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في صحيحه ، وكذا ابن خزيمة دون قوله: وكان النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وجيوشه... وحسنه الترمذي، لكن قوله: فوضعت الصلاة... شاذ) . إسناده: حدثنا الحسن بن علي: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا ابن جريج: أخبرني أبو الزبير أن علياً الأزْدِي أخبره أن ابن عمر أعلمه...
قلت: وهذا سند صحيح على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي. وعلي: هو ابن عبد الله البَارِقِي. والحديث أخرجه مسلم (4/104) ، والنسائي في التفسير ، و اليوم والليلة من الكبرى - كما في التحفة (6/16) -، وابن خزيمة (2542) ، وأحمد (2/150) من طرق عن عبد الرزاق... به؛ دون قوله: وكان النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وجيوشه...إلخ. وهكذا هو في مصنف عبد الرزاق (9232) . وقد توبع؛ فرواه ابن خزيمة في صحيحه (2542) من طريقين آخرين عن ابن جريج... به. وقد توبع ابن جريج، فقال الطيالسي في مسنده (1931) : حدثنا حماد بن سلمة عن أبي الزبير... به دون الزيادة. ومن هذا الوجه: أخرجه الترمذي (3444) ، والدارمي (2/287) ، وأحمد (2/144) من طرق أخرى عن حماد... به. وقال الترمذي: حسن غريب من هذا الوجه .
قلت: ولابن عمر حديث آخر من رواية نافع عنه فيما كان يقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذا قَفَلَ من حج أو عمرة، فيه التكبير على كل شَرَفٍ ثلاثاً، وقوله: آيبون... دون قوله: وكان صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وجيوشه... إلخ. فانقدح في النفس أن هذه الزيادة مدرجة في الحديث، ليست من قول ابن عمر؛ لتفرد المؤلف بها عن شيخه الحسن بن علي- وهو الحُلْواني-، وهو ثقة حافظ؛ فهي شاذة، لا سيما قوله فيها: فوضعت الصلاة على ذلك ! فإني لا أعرف لها شاهداً؛ بخلاف التكبير والتسبيح، فيشهد له حديث جابر رضي الله عنه قال: كنا إذا صَعدْنا؛ كَبَّرْنا، وإذا نَزَلْنا؛ سَبحْنا. أخرجه البخاري (2693- فتح) ، والدارمي (2/288) ، وابن خزيمة (2562) ، وأحمد (3/333) . وفي رواية نافع المشار إليها التكبير فقط ثلاثاً. وستأتي عند المؤلف في آخر هذا الكتاب؛ الجهاد - إن شاء الله تعالى-. ثم تأكدت من الإدراج المذكور، حين رأيت عبد الرزاق روى هذه الجملة المدرجة منفصلة عن الحديث (برقم 9245) عن ابن جريج قال: كان النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وجيوشه... إلخ. فهي عنده معضلة، أدرجها بعضهم في الحديث؛ فصارت متصلة! ولا تصح. وجملة: آيبون... لها شاهد من حديث البراء بن عازب رضي الله عنه: عند ابن حبان (970 و 971) ، و مصنف عبد الرزاق (9240) ، وكذا الترمذي (3536) - وصححه-، والطيالسي (716) ، وأحمد (4/281 و 289 و 300) .
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے جناب علی الازدی کو سفر کے آداب میں یہ سکھایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر کی غرض سے اپنے اونٹ پر بیٹھ جاتے تو تین دفعہ کہتے «الله أكبر» پھر کہتے: «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، اللَّهُمَّ اطْوِ لَنَا الْبُعْدَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، وَالْمَالِ» ” پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے تابع کیا ، ہم ( ازخود ) اس کو اپنا تابع نہ بنا سکتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف ہی لوٹ جانے والے ہیں ۔ اے اﷲ ! میں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور تقوی کا سوال کرتا ہوں اور ایسے عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرا پسندیدہ ہو ، اے اﷲ ! ہمارے لیے ہمارا یہ سفر آسان فر دے اور مسافت کو ہمارے لیے لپیٹ دے ، اے اﷲ ! سفر میں تو ہی رفیق اور اہل اور مال میں خلیفہ ہے ۔ “ اور جب واپس تشریف لاتے تو یہ کلمات پڑھتے اور ان میں یہ اضافہ کرتے: «آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» ”ہم واپس آنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد کرنے والے ہیں۔“ نبی کریم ﷺ اور آپ کے لشکری جب کسی گھاٹی پر چڑھتے تو «الله أكبر» اور اگر کسی پستی میں اترتے تو «سبحان الله» کہتے اور نماز بھی اسی قاعدے پر ہے (کہ اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہی جاتی ہے)۔
حدیث حاشیہ:
1۔ توحید یہی ہے کہ انسان کسی بھی موقع پر اپنے رب تعالیٰ کو بھولنے نہ پائے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت اسی میں ہے۔ کہ ہر ہر عمل میں آپ ﷺ کی اقتداء کی جائے۔ 2۔ حدیث کا جملہ (فوضعت الصلوة علیٰ ذلك) اور نماز بھی اسی قاعدے پر ہے۔ ضعیف ہے۔ (علامہ البانی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ازدی کہتے ہیں کہ ابن عمر ؓ نے انہیں سکھایا کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں جانے کے لیے جب اپنے اونٹ پر سیدھے بیٹھ جاتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے، پھر یہ دعا پڑھتے: «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، اللَّهُمَّ اطْوِ لَنَا الْبُعْدَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، وَالْمَالِ» ”پاک ہے وہ اللہ جس نے اس (سواری) کو ہمارے تابع کر دیا جب کہ ہم اس کو قابو میں لانے والے نہیں تھے، اور ہمیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے، اے اللہ! میں اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ اور پسندیدہ اعمال کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! ہمارے اس سفر کو ہمارے لیے آسان فرما دے، اے اللہ! ہمارے لیے مسافت کو لپیٹ دے، اے اللہ! تو ہی رفیق سفر ہے، اور تو ہی اہل و عیال اور مال میں میرا قائم مقام ہے۔“ اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو مذکورہ دعا پڑھتے اور اس میں اتنا اضافہ کرتے: «آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» ”ہم امن و سلامتی کے ساتھ سفر سے لوٹنے والے، اپنے رب سے توبہ کرنے والے، اس کی عبادت اور حمد و ثنا کرنے والے ہیں۔“ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے لشکر کے لوگ جب چڑھائیوں پر چڑھتے تو ”اللہ اکبر“ کہتے، اور جب نیچے اترتے تو ”سبحان اللہ“ کہتے، پھر نماز بھی اسی قاعدہ پر رکھی گئی۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: چنانچہ رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدہ میں «سبحان ربي الأعلى» اور اٹھتے وقت «الله أكبر» کہا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): When the Apostle of Allah (ﷺ) sat on his camel to go out on a journey, he said: "Allah is Most Great" three times. Then he said: "Glory be to Him Who has made subservient to us, for we had not the strength for it, and to our Lord do we return. O Allah, we ask Thee in this journey of ours, uprightness, piety and such deeds as are pleasing to Thee. O Allah, make easy for us this journey of ours and make its length short for us. O Allah, Thou art the Companion in the journey, and the One Who looks after the family and property in our absence". When he returned, he said these words adding: "Returning, repentant, serving and praising our Lord". The Prophet (ﷺ) and his armies said: "Allah is Most Great" when they went up to high ground; and when armies said: "Allah is most Great" when they went up to high ground; and when they descended, they said: "Glory be to Allah". So the prayer was patterned on that.
حدیث حاشیہ:
الحكم على الحديث
اسم العالم
الحكم
١. فضيلة الشيخ الإمام محمد ناصر الدين الألباني
صحيح دون قوله فوضعت م دون العلو والهبوط فهو حديث آخر صحيح