Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Menstruating Woman Does Not Make Up The (Missed) Prayers)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
262.
سیدہ معاذہ نے بیان کیا کہ ایک عورت نے سیدہ عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ آیا حائضہ (اپنے ایام حیض کی) نمازوں کی قضاء دے؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو حروری ہے؟ بلاشبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہوتے ہوئے حیض سے ہوتی تھیں تو ہم کسی نماز کی قضاء نہیں دیتی تھیں اور نہ ہمیں اس کا حکم ہی دیا جاتا تھا۔
تشریح:
خوارج کو حروراء مقام کی طرف نسبت کرتے ہوئے ’’حروري‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کے بعد سب سے پہلا اجتماع مقام حروراء میں کیا تھا جو کوفہ کے قریب تھا۔ وہ حائضہ کے لیے ایام حیض کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنے کے قائل بھی تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ جو کچھ قرآن سے ثابت ہو وہی قابل عمل ہے اور جو امور زائدہ احادیث میں آئے ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اور مرتکب کبیرہ کافر ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وابن حبان (1346) ، وأبو عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: نا وهيب: نا أيوب عن أبي قلابة عن معاذة. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث أخرجه مسلم وأبو عوانة والنسائي والترمذي- وقال: حسن صحيح - والدارمي والبيهقي، وأحمد (6/32 و 232) من طرق أخرى عن أيوب... به. وأخرجه الشيخان وأبو عوانة، والنسائي (1/319) ، وابن ماجه والبيهقي، والطيالسي (رقم 1570) ، وأحمد (6/97 و 120 و 143 و 185) من طرق عن معاذة. وفي لفظ: ... فأمرهن أن يَجْزِينَ؟! أخرجه مسلم وأحمد من طريقما يزيد الرشْكِ عن معاذة. وللحديث طريق أخرى عن عائشة بلفظ: كنا نحيفعند رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ فما يأمر امرأة منا بِرد الصلاة. أخرجه الدارمي (1/233) ؛ وسنده لا بأس به في المتابعات والشواهد.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدہ معاذہ نے بیان کیا کہ ایک عورت نے سیدہ عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ آیا حائضہ (اپنے ایام حیض کی) نمازوں کی قضاء دے؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو حروری ہے؟ بلاشبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہوتے ہوئے حیض سے ہوتی تھیں تو ہم کسی نماز کی قضاء نہیں دیتی تھیں اور نہ ہمیں اس کا حکم ہی دیا جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
خوارج کو حروراء مقام کی طرف نسبت کرتے ہوئے ’’حروري‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کے بعد سب سے پہلا اجتماع مقام حروراء میں کیا تھا جو کوفہ کے قریب تھا۔ وہ حائضہ کے لیے ایام حیض کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنے کے قائل بھی تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ جو کچھ قرآن سے ثابت ہو وہی قابل عمل ہے اور جو امور زائدہ احادیث میں آئے ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اور مرتکب کبیرہ کافر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاذہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے پوچھا: کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی؟ تو اس پر آپ نے کہا: کیا تو حروریہ ہے۱؎؟ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ہمیں حیض آتا تھا تو ہم نماز کی قضاء نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: حروراء کوفہ سے دو میل کی دوری پر ایک گاؤں کا نام ہے، خوارج کا پہلا اجتماع اسی گاؤں میں ہوا تھا، اسی گاؤں کی نسبت سے وہ حروری کہلاتے ہیں، ان کے بہت سے فرقے ہیں لیکن ان سب کا متفقہ اصول یہ ہے ان کا نظریہ یہ تھا کہ جو کچھ قرآن سے ثابت ہو وہی قابل عمل ہے اور جو امور زائدہ احادیث میں آئے ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عورت سے پوچھا: تو حروریہ یعنی خارجی عورت تو نہیں جو ایسا کہہ رہی ہے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mu’adhah reported: A woman asked ‘A’ishah (RA): should a menstruating woman complete the prayer abandoned during the period of menses? ‘A’ishah (RA) said: Are you a Haruriyyah? During menstruation in the time of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) we would not complete (the abandoned prayers), nor were we commanded to complete them.