باب: جو شخص سجدہ کر کے پناہ چاہے اس کو قتل کرنا ممنوع ہے
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: The Prohibition Of Fighting A Person Who Seeks Protection By Prostrating)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2645.
سیدنا جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ خشعم کی طرف ایک مہم روانہ فرمائی تو ان میں سے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے پناہ حاصل کرنی چاہی لیکن (مجاہدین نے ان کو) جلدی جلدی قتل کر ڈالا۔ نبی کریم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا۔ اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے اندر مقیم ہو۔“ انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یعنی دونوں کو ایک دوسرے کی آگ دکھائی نہ دے (آبادی اس قدر دور دور ہونی چاہیئے۔) امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ہشیم، معمر، خالد واسطی اور کئی لوگوں نے روایت کیا ہے اور انہوں نے جریر ؓ کا واسطہ ذکر نہیں کیا۔
تشریح:
1۔ یہ روایت ضعیف ہے، مگر بعض آئمہ کے نزدیک صحیح ہے۔ البتہ اس میں نصف دیت والا ٹکڑا صیح نہیں ہے۔ 2۔ حدیث کا آخری جملہ (لاتراءی ناراهما) کا لفظی ترجمہ یہ ہوسکتا ہے۔ کہ ان دونوں یعنی مسلمانوں اور کافروں کی آگیں بھی نظر نہیں آنی چاہیں۔ علامہ خطابی نے اس کی توضیح میں تین قول لکھے ہیں۔ (الف) مسلمان اور کافر برابر نہیں۔ اور ان کا حکم ایک جیسا نہیں (ب) مسلمانوں کو کافروں سے اس حد تک دور رہنا چاہیے کہ آگ جلائی جائے تو نظر نہ آئے۔ اس معنی سے استدلال کیا جاتا ہے کہ دارالحرب میں کسی اشد ضرورت کے پیش نظر چار دن سے زیادہ اقامت نہ کی جائے۔ (ج) یعنی اہل لغت یہ ترجمہ کرتے ہیں۔ کہ ان دونوں (مسلمان اور مشرک) میں کوئی مشابہت ومماثلت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ معنی عرب کے اس اسلوب کلام سے ماخوذ ہے جس میں وہ بولتے (ما نار بعيرك) تیرے اونٹ کی علامت اوراس کا حال کیسا ہے؟ (نارھا تجارھا) اس کی اونچی کوہان پر دیا گیا داغ اس کے اصیل ہونے کی علامت ہے۔ 2۔ جب کوئی شخص کسی طرح اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کردے تو اس کا خون اور مال محفوظ ہوجاتا ہے۔ 4۔ کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کے کفار کے ملک میں بالخصوص دارالحرب میں مستقل سکونت اختیار کرے۔ 5۔ واجب ہے کہ مسلمان اپنے عقیدے اور عمل کے علاوہ عادات وثقافت میں بھی کفار سے نمایاں رہے اور ان کی مشابہت ومماثلت اخیتار نہ کرے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، دون العقل) . إسناده: حدثنا هَنَّادُ بن السَري: ثنا أبو معاوية عن إسماعيل عن قيس عن جرير بن عبد الله. قال أبو داود: رواه هُشَيْمٌ ومَعْمَرٌ وخالد الواسطي وجماعة... لم يذكروا جريراً .
قلت: ورجاله ثقات كلهم رجال الشيخين؛ غير هَنادِ بن السرِي؛ فمن رجال مسلم. وقد توبع: عند البيهقي (8/131) وغيره ممن خرجتهم في الإرواء (1207) ، وذكرت له هناك بعض الطرق والشواهد، أحدها صحيح الإسناد، لكن ليس في شيء منها ذكر العقل؛ أي: الدية. وقد ذكر البيهقي عن الشافعي أنه قال: إن كان هذا ثبت؛ فأحسب النبي- والله أعلم- أعطى من أعطى منهم متطوعاً . والله أعلم.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ خشعم کی طرف ایک مہم روانہ فرمائی تو ان میں سے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے پناہ حاصل کرنی چاہی لیکن (مجاہدین نے ان کو) جلدی جلدی قتل کر ڈالا۔ نبی کریم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا۔ اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے اندر مقیم ہو۔“ انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یعنی دونوں کو ایک دوسرے کی آگ دکھائی نہ دے (آبادی اس قدر دور دور ہونی چاہیئے۔) امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ہشیم، معمر، خالد واسطی اور کئی لوگوں نے روایت کیا ہے اور انہوں نے جریر ؓ کا واسطہ ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ روایت ضعیف ہے، مگر بعض آئمہ کے نزدیک صحیح ہے۔ البتہ اس میں نصف دیت والا ٹکڑا صیح نہیں ہے۔ 2۔ حدیث کا آخری جملہ (لاتراءی ناراهما) کا لفظی ترجمہ یہ ہوسکتا ہے۔ کہ ان دونوں یعنی مسلمانوں اور کافروں کی آگیں بھی نظر نہیں آنی چاہیں۔ علامہ خطابی نے اس کی توضیح میں تین قول لکھے ہیں۔ (الف) مسلمان اور کافر برابر نہیں۔ اور ان کا حکم ایک جیسا نہیں (ب) مسلمانوں کو کافروں سے اس حد تک دور رہنا چاہیے کہ آگ جلائی جائے تو نظر نہ آئے۔ اس معنی سے استدلال کیا جاتا ہے کہ دارالحرب میں کسی اشد ضرورت کے پیش نظر چار دن سے زیادہ اقامت نہ کی جائے۔ (ج) یعنی اہل لغت یہ ترجمہ کرتے ہیں۔ کہ ان دونوں (مسلمان اور مشرک) میں کوئی مشابہت ومماثلت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ معنی عرب کے اس اسلوب کلام سے ماخوذ ہے جس میں وہ بولتے (ما نار بعيرك) تیرے اونٹ کی علامت اوراس کا حال کیسا ہے؟ (نارھا تجارھا) اس کی اونچی کوہان پر دیا گیا داغ اس کے اصیل ہونے کی علامت ہے۔ 2۔ جب کوئی شخص کسی طرح اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کردے تو اس کا خون اور مال محفوظ ہوجاتا ہے۔ 4۔ کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کے کفار کے ملک میں بالخصوص دارالحرب میں مستقل سکونت اختیار کرے۔ 5۔ واجب ہے کہ مسلمان اپنے عقیدے اور عمل کے علاوہ عادات وثقافت میں بھی کفار سے نمایاں رہے اور ان کی مشابہت ومماثلت اخیتار نہ کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جریر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ خثعم کی جانب ایک سریہ بھیجا تو ان کے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے بچنا چاہا پھر بھی لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی، نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے ان کے لیے نصف دیت۱؎ کا حکم دیا اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔“ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”دونوں کی (یعنی اسلام اور کفر کی) آگ ایک ساتھ نہیں رہ سکتی۔“ ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشیم، معمر، خالد واسطی اور ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے جریر کا ذکر نہیں کیا ہے۳؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: نصف دیت کا حکم دیا اور باقی نصف کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہو گئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا درحقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں نصف دیت ساقط ہو گئی۔ ۲؎: اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں: ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علیحدہ کر دیا ہے، لہٰذا مسلمانوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل وصورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے۔ ۳؎: یعنی: ان لوگوں نے اس حدیث کو «عن قیس عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم» مرسلاً روایت کیا ہے، بخاری نے بھی مرسل ہی کو صحیح قرار دیا ہے، مگر موصول کی متابعات صحیحہ موجود ہیں، جیسا کہ البانی نے (إرواء الغلیل، حدیث نمبر: ۱۲۰۷ میں) ذکر کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jarir ibn 'Abdullah (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) sent an expedition to Khath'am. Some people sought protection by having recourse to prostration, and were hastily killed. When the Prophet (ﷺ) heard that, he ordered half the blood-wit to be paid for them, saying: I am not responsible for any Muslim who stays among polytheists. They asked: Why, Apostle of Allah (ﷺ)? He said: Their fires should not be visible to one another.